آلودہ ہواؤں نے پورے پاکستان کو لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ملتان مسلسل دوسرے دن ملک کا آلودہ ترین شہر قرار دیا گیا۔ معیارِ ہوا کا اشاریہ یعنی ائیر کوالٹی انڈکس 1300 کو چھو کر بعد میں 700 تک آیا۔ دوسرے نمبر پر لاہور 467، پشاور 392 کے ساتھ تیسرے اور راولپنڈی 254 سکور کے ساتھ چوتھا آلودہ ترین شہر رہا۔ اسلام آباد پانچواں جبکہ کراچی ملک کا آٹھواں آلودہ ترین شہر رہا۔ فضائی آلودگی سے پنجاب کے وسطی اور جنوبی علاقے شدید متاثر ہوئے ہیں جس سے معمولات زندگی درہم برہم ہو کر رہ گئے۔ لوگ مختلف بیماریوں کا شکار ہونے لگے ہیں۔ پنجاب حکومت نے لاہور میں مصنوعی بارش برسانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق، 11 اور 12 نومبر کو مصنوعی بارش کا پہلا ٹرائل کرنے کی تیاریاں شروع کر دی گئی ہیں۔ یہ اقدام سموگ کے باعث بڑھتی ہوئی بیماریوں اور ماحولیاتی خطرات کو کم کرنے کے لیے کیا جارہا ہے ۔ بڑھتی ہوئی سموگ صرف پاکستان کا ہی مسئلہ نہیں ہے، اس سے بھارت، چین اور اردگرد کے دوسرے ملک بھی شدید متاثر ہو رہے ہیں۔ چین اپنے ہاں سموگ پر قابو پانے کے لیے ہرممکن اقدامات کر رہا ہے اس کے باوجود چین متاثرہ ملکوں کی فہرست میں شامل ہے۔ ادھر، بھارت کا بھی یہی حال ہے جو اس وقت پاکستان کا ہے۔ سوال یہ ہے کہ سموگ کے تدارک کے لیے حکومتیں کیا کر رہی ہیں، چین تو خصوصی اقدامات کرکے اپنے ہاں معیارِ ہوا کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہا ہے جبکہ ہمارے ہاں دعوے، منصوبہ بندی اور اقدامات کا صرف شور مچایا جا رہا ہے مگر عملی طور پر کچھ ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ یہی وجہ ہے کہ فضائی آلودگی کے حوالے سے لاہور سمیت پاکستان کے کئی شہر دنیا بھر میں سرفہرست نظر آرہے ہیں۔ سموگ اور اس کی وجہ سے ہونے والی بیماریوں کا ملبہ کسی دوسرے پر ڈالنے کے بجائے بہتر ہے کہ اس کی روک تھام کے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔ لاہور کے مسلسل گردآلود ہونے کی وجہ سے حکومت پنجاب نے مصنوعی بارش کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو خوش آئند ہے۔ اس بارش سے سموگ کا زور کم کیا جا سکتا ہے۔ سموگ کے بداثرات سے بچنے کے لیے شہریوں کو خود بھی احتیاط کرنے کی ضرورت ہے۔ بلاوجہ گھروں سے نہ نکلیں، کھڑکیاں اور دروازے بند رکھیں، باہر نکلتے وقت ماسک کا استعمال کریں، کوڑا کرکٹ نہ جلائیں، اسے کوڑا دان میں ڈالیں، غرارے کریں، بھاپ لیں تو کسی حد تک سموگ کے بداثرات سے بچا جا سکتا ہے۔