کوئٹہ ریلوے سٹیشن دھماکا کالعدم بی ایل اے نے ذمہ داری قبول کر لی

Nov 11, 2024

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں ریلوے سٹیشن پر ہونے والے خود کش بم دھماکے کی ذمہ داری دہشت گرد تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے قبول کرلی ہے۔ اس دھماکے سے تا دمِ تحریر 27 افراد کے شہید ہوئے اور 62 سے زائد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ دھماکے میں جاں بحق اور زخمیوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں جبکہ متعدد زخمیوں کی حالت تشویش ناک بتائی جاتی ہے۔ دھماکا صبح  8بج کر 20 منٹ پر پلیٹ فارم نمبر1 کے داخلی دروازے پر ہوا، دھماکے کے وقت پلیٹ فارم نمبر1 پر کوئی ٹرین موجود نہ تھی، جعفر ایکسپریس نے 8.30 بجے پلیٹ فارم نمبر 1 پر پہنچنا تھا۔ پلیٹ فارم نمبر2 پر موجود مسافر اس دھماکے کے اثرات سے محفوظ رہے۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق ، خودکش حملہ آور نے 7 سے 8 کلو دھماکہ خیز مواد جسم سے باندھا تھا، خودکش حملہ آور نے مسافروں کے درمیان پہنچ کر خود کو دھماکے سے اڑایا۔ خودکش حملہ آور کے جسمانی اعضاء ٹیسٹ کے لیے فرانزک لیب بھجوا دیے گئے۔ حملہ آور کی شناخت کے لیے نادرا سے مدد لی جائے گی۔
پاکستانی قیادت اور سیاسی رہنماؤں کے علاوہ دیگر ممالک کے قائدین نے بھی اس دھماکے پر مذمتی بیانات جاری کیے ہیں۔ اس سلسلے میں برطانوی ہائی کمشنر جین میریٹ نے اپنے ردعمل میں کہا کہ یہ کارروائیاں تقسیم کے بیج بونے کے سوا کچھ نہیں کرتیں۔ کوئٹہ میں ہونے والے ہولناک دھماکے کے نتیجے میں انسانی جانوں کے ضیاع پر بہت دکھ ہوا ہے۔ برطانیہ دہشت گردی کی مذمت میں پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے۔ ترک وزارت داخلہ نے اس حوالے سے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جد و جہد میں پاکستان کی حمایت جاری رکھیں گے۔ امریکا نے کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر خودکش دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے دھماکے کے متاثرین اور ان کے اہل خانہ سے تعزیت کا اظہار کیا اور کہا کہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے وزیراعظم محمد شہباز شریف اور صدر آصف علی زرداری کو بھیجے گئے تعزیت نامے میں کہا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے ہر قسم کا تعاون کریں گے۔ ہم دہشت گردی کی تمام شکلوں کے خلاف اپنے پاکستانی شراکت داروں کے ساتھ قریبی تعاون جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہیں۔ ایران نے بھی دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی پورے خطے کے لیے مشترکہ خطرہ ہے جس کے خاتمے کے لیے علاقائی اور اجتماعی تعاون کی ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں، ملائشیا کے وزیراعظم انوار ابراہیم نے بھی صدر زرداری اور وزیراعظم شہباز شریف کے نام پیغام میں حملے کی شدید مذمت کی ہے۔ 
ادھر، پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ دہشت گردی کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی، پاکستان سے دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کیا جائے گا۔ جنرل عاصم منیر نے کوئٹہ ریلوے سٹیشن دھماکے کے شہدا کی نماز جنازہ میں شرکت کی۔ آرمی چیف نے کوئٹہ کے دورے میں کمبائنڈ ملٹری ہسپتال (سی ایم ایچ) کا دورہ کیا اور واقعے میں زخمی ہونے والوں کی عیادت کی۔ جنرل عاصم منیر کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف مشن کو قومی عزم کے ساتھ جاری رکھا جائے گا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی کے لیے پوری قوم ثابت قدم ہے۔ عوام کی حمایت، فوج اور سول اداروں کی کوششوں سے جنگ جیتیں گے۔
مذکورہ خود کش دھماکے کے علاوہ ہفتے کے روز بلوچستان میں پیش آنے والے ایک اور واقعے میں کوئٹہ زیارت مین روڈ پر مانگی کے مقام پر کوئلے سے لدے تین ٹرکوں کو آگ لگا دی گئی۔ لیویز حکام کا کہنا ہے کہ نامعلوم افراد نے تین ٹرکوں کو آگ لگائی۔ ٹرکوں میں ہرنائی کے علاقے شاہرگ اور کھوسٹ سے نکالا گیا کوئلہ سپلائی کیا جا رہا تھا، نامعلوم افراد نے ایس پی ہرنائی کی گاڑی پر فائرنگ کی جسے ایک محافظ زخمی ہوگیا تاہم ایس پی ہرنائی محفوظ رہے۔ مانگی کے مقام پر ڈپٹی کمشنر ہرنائی کی گاڑی پر بھی فائرنگ کی گئی جس سے مائنز انسپکٹر خلیل ملازئی شہید ہو گئے۔
بلوچستان میں گزشتہ چند ماہ کے دوران دہشت گردی اور تخریب کاری کے واقعات میں جو تیزی آئی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امن دشمن عناصر ریاست کی طرف سے کسی بڑی کارروائی کا تقاضا کررہے ہیں۔ کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر ہونے والا خود کش دھماکا صرف ایک واقعہ نہیں ہے بلکہ یہ اس سے پہلے ہونے والی تخریب کاری کی کئی وارداتوں کا تسلسل ہے۔ اس سلسلے کو روکنے کے لیے ریاست کو سنجیدگی سے وہ تمام اقدامات کرنا ہوں گے جن کے ذریعے دہشت گردی کرنے والوں اور ان کے عزائم کو خاک میں ملایا جاسکے۔ کئی ثبوت اور شواہد یہ بتاتے ہیں کہ بھارت دہشت گردی کی ان وارداتوں میں براہِ راست ملوث ہے، لہٰذا پاکستان کو ایک جانب دہشت گرد عناصر کے خلاف بھرپور کارروائی کرنی چاہیے اور دوسری طرف اقوامِ متحدہ سمیت تمام اہم عالمی اداروں اور بین الاقوامی برادری کو بار بار یہ احساس دلانا چاہیے کہ بھارت خطے میں قیامِ امن کے سلسلے میں رکاوٹیں پیدا کررہا ہے اور اس کا یہ رویہ ایسے مسائل کو جنم دے سکتا ہے جو صرف خطے تک محدود نہیں رہیں گے۔

مزیدخبریں