خطہ سدھنوتی پلندری کو یہ اعزاز اور افتخار حاصل ھے کہ تحریک آزادی کشمیر کی بنیادی حیثیت حاصل ہے یہاں سے اٹھنے والی تحریک نے مہاراجہ گلاب سنگھ کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور بالآخر ہری سنگھ کو نہ صرف اقتدار بلکہ اسکے ریاست کشمیر پر دعویٰ ملکیت سے محروم کیا بلکہ صدیوں پر محیط اس جدوجہد نے ایک لازوال تاریخ رقم کی ہے جو اس خطہ کے باسیوں کیلئے بھی وجہ افتخار ہے اور دْنیا کے معروف مورخین کے نزدیک بھی عدیم المثال ہے۔ اس تاریخ کو مسخ کرنے کی کوششیں بھی ہوتی رہیں لیکن جب بھی مورخ اس خطے کے بارے میں لکھے گا ان سپوتوں کے کارہائے نمایاں کو نظر انداز نہیں کر سکے گا۔
کرنل خان محمد خان اس تاریخ ملی کے ایک قابل فخر باب کا درجہ رکھتے ہیں۔ کشمیری نڑاد ممتاز قانون دان اور لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس، پاکستان کے محتسب اول سردار محمد اقبال خان(مرحوم) نے خان صاحب کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ خانصاحب ( کرنل خان محمد خان) جیسی شخصیات قوموں کی زندگی میں چراغ راہ کی حیثیت رکھتی ہیں اور نشان منزل بھی ہوتی ہیں۔ خانصاحب سستی شہرت کے کبھی طالب نہ رہے انہوں نے قومی خدمت اور ملی تگ و دو کیلئے سیاست کی بجائے علم اور اصلاح معاشرہ جیسے دشوار کن مگر پائیدار شعبوں کا انتخاب کیا۔ پونچھ اوراہل پونچھ کی ترقی کے ہر میدان میں خانصاحب کی شخصیت کا اثر اولین محرک نظر آتا ہے۔ انہوں نے تعلیم کی بنیادی اہمیت کا اندازہ کرتے ہوئے تعلیم کے فروغ کیلئے اپنی زندگی وقف کردی اور ایک ایسے متوازن اور موثر نظام تعلیم کی تشکیل کی جس کے مثبت اثرات پونچھ میں ہی نہیں بلکہ پورے جموں وکشمیر میں شمع نور بن کر روشن ہوئے۔ انہوں نے لوگوں میں خود اعتمادی اور محنت پہ فخر کے جذبے کو بیدار کیا اور انہیں ایک خود کفیل نظام معیشت اپنانے پر آمادہ کیا۔ ان کے کارناموں کی بنا پر قوم نے محبت و عقیدت سے انہیں بجا طور پر’’ پونچھ کا سر سیّد ‘‘اور بابائے پونچھ جیسے القابات سے نوازا۔ مرحوم کے دونوں القاب و خطاب سے عیاں ہوتا ہے کہ ان میں قبیلائی تعصب نہیں تھا اور اہلیان پونچھ خواہ وہ کسی بھی کنبے قبیلے سے تعلق رکھتے ہوں انہیں خانصاحب کی خدمات جلیلہ پر فخر ہے۔
خان صاحب بلاشبہ یگانہ کشمیر تھے وہ ایک معلم اور مصلح بھی اور قوم کے منتظم و منصرم بھی تھے ،انہوں نے ایک بہادر وجفاکش، سرکش سدھن قبیلے کو نظم و ضبط کا پابند بناتے ہوئے ان سے وہ کام لیا جس پر ہر ایک کو فخر و انبساط ہے۔ خانصاحب اپنی طبعیت میں بڑے نرم خو، صلح جو، معاملہ فہم اور فیصلوں میں مصمم اور محترک کردار کے حامل تھے۔
آپ نے پلندری کے ایک گا?ں چھے چھن جسے بعد میں آپ کے نام سے ’’خان آباد‘‘ کے نام سے موسوم کیا گیا اس گاؤں میں 1882ء میں جنم لیا۔ ابتدائی تعلیم گائوں میں حاصل کی مولوی بہادر علی ساکن بارل کوآپ کی ابتدائی تعلیم کیلئے گھر پر ہی اتالیق رکھا گیا جنہوں نے آپ کو ابتدائی تعلیم عربی، فارسی و اْردو سے روشناس کرایا اور بعدازاں آپ کو کہوٹہ ضلع راولپنڈی کے سکول میں پرائمری تک داخل کرایا گیا۔ روزانہ کی مسافت25/30 میل طے نہ کر سکنے کے باعث آپ کو وھاں کہوٹہ میں رہائش اختیار کرنا پڑی۔ تعلیم سے فراغت کے بعد آپ نے آرمی جوائن کر لی، آپ نے سپاہی کی حیثیت سے اپنے کیریر کا آغاز کیا اور ترقی کرتے کرتے صوبیدار کے منصب تک پہنچے۔ اس دور میں یہ منصب بھی بہت کم کم لوگوں کو ملتا تھا چونکہ تعلیم نہ تھی اور مہاراجہ کی پالیسیوں کی وجہ سے پونچھ کے لوگوں کی معاشی حالت بہت خراب تھی، یہی وجہ تھی کہ خانصاحب نے تعلیم اور روزگار پر بہت تو جہ دی وہ جانتے تھے کہ اگر اس خطے کے بہادر لوگوں کی معاشی حالت بہتر ہو جائے اور انہیں تعلیم کی سہولت حاصل ہو جائے تو یہ بہت ترقی کر سکتے ہیں۔ فوج میں اعلیٰ کارکردگی پر جب کمانڈر نے ریٹائرمنٹ کے وقت ان کی خواہش کے بارے میں پوچھا تو آپ نے کہا کہ میرے علاقہ میں ایک پرائمری سکول کھولنے کی سفارش کی جائے، چنانچہ کمانڈر کی سفارش پر سکول کی منظوری دی گئی اور انہوں نے فوج سے ریٹائر منٹ کے بعد اسی میدان کو چنا اور اصلاح معاشرہ کا بیڑہ اْٹھایا۔ آپ انجمن اسلامیہ پونچھ کے صدر منتخب ہوئے اور لوگوں میں تعلیم کی اہمیت اجاگر کرنے کیلئے قریہ قریہ جاتے رہے، مہاراجہ پونچھ نے جب یہ دیکھا کہ آپ لوگوں کو منظم کر رہے ہیں اور تعلیم کی طرف راغب کر رہے ہیں تو انجمن اسلامیہ کی صدارت سے آپ کو فارغ کروا دیا گیا۔ چنانچہ کچھ عرصے بعد آپ نے’’ سدھن ایجوکیشنل کانفرنس‘‘ کی بنیاد رکھی۔ اس تنظیم کو اپنے قبیلے سے موسوم کرنا کسی تعصب کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ آپ جانتے تھے کہ اس قبیلے کی اس علاقے میں اکثریت ہے اور ان میں جہالت بھی زیادہ ہے اور دیگر قبیلوں سے مسابقت کے جذبے کو فروغ دینے کیلئے یہ نام تجویز کیا تاکہ قبیلائی تعصب کی بجائے عصبیت کی وجہ سے بھی زیادہ محنت کرکے تعلیم حاصل کرے۔ لیکن تعلیمی وظائف اور امداد بلا تخصیص تمام قبائل کے ہونہار اور ضرورت مند بچوں کو دستیاب تھی۔ خانصاحب نے ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو فوج میں ملازمت فراہم کرانے میں کلیدی کردار ادا کیا اس کا بعد میں فائدہ یہ ہوا کہ انہی ڈسپلنڈ اور تربیت یافتہ افراد نے تحریک آزادی کو منظم کیا اور آزاد جموں وکشمیر کا موجودہ خطہ آزاد کرایا،آپ نے اپنے علاقے سے نسوار تمباکو کے خاتمے، شادی بیاہ اور ماتم میں فضول رسوم کے خلاف جہاد کیا۔آپ جس گھر میں قیام فر ماتے اہلخانہ پر یہ پابندی ہوتی کہ اپ کو وہی کھانا دیں جو گھر میں عمومی طور پر پکا ہے خصوصی دعوتوں کے آپ سخت خلاف تھے۔ آپ مردوں کے علاوہ خواتین پر بہت توجہ دیتے تھے جہاں جاتے وہاں خواتین سے ضرور خطاب کرتے جس گھر میں ٹھہرتے صبح اٹھ کر خاتون خانہ کو بلاتے مہمانداری پر شکریہ ادا کرتے کھانے کی تعریف کرتے اور انہیں سمجھاتے کہ بچوں کی تعلیم پر زیادہ توجہ دیں اور فضول رسوم سے اجتناب کریں۔ آپ ٹھیٹھ پہاڑی اور مقامی زبان میں روانی سے تقاریر اور گفتگو کرتے جو خواتین وحضرات کو از بر ہو جاتیں، خواتین آپ کی پیروں اور روحانی پیشوائوں کی طرح عزت و تکریم کرتیں۔
خانصاحب نے تعلیم و معیشت کی بہتری کیلئے جس مشن کا آغاز کیا اس کے دْور رس اثرات آج تک محسوس ہو رہے ہیں کہ پونچھ تعلیم کے لحاظ سے سرفہرست ہے اور آرمی میں جو بھی لوگ لیفٹیننٹ جنرل/ جنرل تک پہنچے یہ سب خانصاحب کے ویڑن کا نتیجہ ہے۔ خان صاحب کی زندگی بڑے بڑے کارناموں سے عبارت ہے۔ آپ12سال (1934تا05جنوری1947) تک ممبر پرجا سبھا رہے آپ کو جنگ عظیم دوم کے بعد اعلیٰ فوجی خدمات اور آرمی ریکروٹنگ آفیسر کی حیثیت سے کیپٹن کا اعزازی عہدہ دیا گیا بعد ازاں جب تحریک آزادی کشمیر شروع ہوئی تو آپ کو کرنل کے عہدے پر فائز کیا گیا۔ آپ نے اپنے جانشین کا انتخاب اپنے اعزہ و اقربا سے کرنے کے بجائے راولاکوٹ سے ایک بیرسٹر سردار محمد ابراہیم خان کی صورت میں کیا۔ اور ان کی پہلی انتخابی مہم خود چلائی قریہ قریہ ، گائوں گائوں گئے اور سردار محمد ابراہیم خان کا تعارف کروایا اور لوگوں کو انہیں ووٹ دینے پر آمادہ کیا۔ اس وقت پونچھ کے دونوں ممبران اسمبلی خانصاحب( مرحوم) اور سردار فتح محمد خان کریلوی( مرحوم) نے اپنے اپنے جانشین بیرسٹر سامنے لائے، ان دونوں رہنمائوں کو اللہ تعالیٰ نے اولاد کی ایسی نعمت عطا فرمائی کہ سردار فتح محمد کریلوی کے فرزند سردار سکندرحیات خان دو بار وزیراعظم دوبارصدرآزاد جموں وکشمیر اور پاکستان قومی اتحاد کے سیکرٹری جنرل کے علاوہ مسلسل 12سال تک آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کے صدر رہے اور 1988ء میں بھی صدارت کیلئے مجلس عاملہ نے انہیں ہی منتخب کیا تھا لیکن انہوں نے معذرت کرتے ہوئے یہ عہدہ سردار محمد عبدالقیوم خان صاحب کو تفویض کیا اورکشمیر کی تاریخ میں ان جیسا وزیر اعظم شائد ہی کبھی مل پائے۔ اسی طرح خانصاحب کی اولاد میں صوبیدار میجر علی محمد علیگ، خان صاحب کی طرح ہی نرم خو اور دھیمے مزاج کی شخصیت اور خانصاحب کا پرتو تھے۔کرنل ایم نقی خان جیسا ذہین، دلیر اور قابل آرمی آفیسر کم کم ہی رھے ہیں وہ وزیر بھی رہے اللہ زندگی دیتا تو یقینا وہ سیاست کے میدان میں بھی اپنے جوہر دکھاتے ،اب ان کے اکلوتے فرزند ڈاکٹر محمد نجیب نقی خان بھی ہماری موجودہ سیاسی لاٹ میں اپنی اعتدال پسندی، معاملہ فہمی ، سیاسی سوجھ بوجھ اور بردباری میں یکتا و منفرد اعزاز کے حامل ہیں وہ بھی متعد د بار ممبر اسمبلی و کونسل اور وزیر حکومت رہ چکے ہیں۔ انکی ھمشیرہ محترمہ خالدہ صادق جو برگیڈئیر محمد صادق خان سابق نگران وزیر حکومت پنجاب،ڈاکٹر محمد نجیب نقی صاحب کی بڑی ہمشیرہ محترمہ رفعت مشتاق، خان صاحب کے مشن کے تکمیل کیلئے علم کی شمع کو فروزاں رکھے ہوئے ہیں پاکستان میں Roots System of Education کی بانی و منتظم ہیں وہ اپنے دادا اور والد کے مشن کو آگے بڑھا رہی ہیں۔
آج ہم سیاست میں وراثت کے جس دور کا شکار ہیں ماضی میں ہماری تاریخ اس سانحے کا شکار ہوتی تو شائد ہم موجودہ آزادی بھی حاصل نہ کر پاتے لیکن ہمارے اکابر نے اس دور میں اقربا پروری کے بجائے میرٹ کی پاسداری کی خانصاحب کی قومی و ملی جدوجہد پر ان کے داماد پونچھ کی ہر دلعزیز و معروف شخصیت بریگیڈئر محمد صادق خان نے ممتاز ماہر تعلیم ڈاکٹر غلام حسن ا ظہر کی معاونت سے انکی سوانح حیات ‘‘ یگانہ کشمیر‘‘ کے نام سے شائع کی ہے جس میں مرحوم کے کارہائے نمایاں کو شرح و بسط کیساتھ بیان کیا گیا ہے۔ یہ سوانح دوبارہ ان کے پوتوں ور نواسی میجر سکندر حیات، ڈاکٹر محمد نجیب نقی، سردار جہانگیر خان ، تہمینہ خان مرحومہ و دیگر کے اشتراک سے شائع کی گئی ہے۔ ان کی نواسی محترمہ تہمینہ خان اس سوانح حیات کو اپنے احباب و خواص میں تقسیم کرتی رہیں اور انہوں نے ازراہ لطف و کرم اس کی ایک کاپی مجھے بھی عنایت کی تھی جس کیلئے میں ان کا شکرگذار ہوں اور دعاگو بھی کہ اللہ تعالیٰ انہیں خصوصی جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے کہ وہ اپنی والدہ محترمہ خالدہ خانم(مرحومہ) اور والد گرامی بریگیڈئیر محمد صادق خان(مرحوم) کے مشن کو آگے بڑھایا تاوقتیکہ ایک حادثے (گھر میں گیس سلنڈر پھٹنے سے انکی شہادت ھوئی) میں اپنی جان جان آفریں کے سپرد کردی ، وہ پاکستان مسلم لیگ(ن) آزاد جموں وکشمیر خواتین ونگ کی نائب صدر بھی اور حکومت میں خواتین رائٹس کی ڈاریکٹر بھی رہیں۔
خانصاحب( مرحوم) کی برسی ہر سال11نومبر کو پلندری میں عقیدت و احترام اور قومی جوش جذبے سے منائی جا تی ہے۔ اس تقریب میں مختلف علاقوں سے عمائدین،سابق فوجی حضرات اور سیاسی زعما ء مرحوم خانصاحب(سرسیّد پونچھ) کی قومی و ملی خدمات پر اظہار خیال کرتے ہیں۔حسب روایت اس بار بھی مرحوم کی سالانہ برسی روایتی جوش وجذبے اور نہایت ہی عزت واحترام کیساتھ منائی جارہی ہے۔ جس میں سیاسی زعما، عمائدین علاقہ اور مختلف مکاتب فکر کے لوگ مدعوہیں جو مرحوم خانصاحب(سرسیّد پونچھ) کی قومی و ملی خدمات پر روشنی ڈالیں گے۔
مرحوم کی قائم کردہ سدہن ایجوکیشنل کانفرنس اور ان کے رفقاء خاص منشی فیروز علی خان اور دیگر اکابر کا قائم کردہ دینی ادارہ جامع تعلیم القرآن پلندری ان ہی مقاصد و نصب العین کو آگے بڑھانے کیلئے مصروف عمل ہے۔ خانصاحب نے جس جدوجہد کا آغاز کیا تھا ہم اسکو جاری رکھیں اگرچہ آج معاشرہ ترقی کی بجائے تنزلی کا شکار ہو چکا ہے اعلیٰ اخلاقی اقدار روبہ زوال ہوتی جا رہی ہیں آج تعلیم تو عام ہے لیکن مقصد تعلیم مفقود ہوتا جا رہا ہے۔ بری رسوم نے پھرسے ہمارے گرد احاطہ کیا ہوا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس جذبہ کو دوبارہ بیدار کیا جائے اور ہمیں خانصاحب کے مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے ان برائیوں کے خلاف جہاد کرنا ہوگا اور جزوی آزادی کو کلی آزادی کیطرف لیجانا ہوگا۔خانصاحب کے چشمہ فیض سے آج بھی نسلیں فیض یاب اور فصلیں سیراب ہو رہی ہیں۔
خانصاحب کی جلائی ہوئی شمعیں آج بھی فروزاں ہیں اور انکے لگائے ہوئے پیڑ ثمر بار ہیں۔ خانصاحب ایک دین دار، پرہیز گار،شب بیدار و سحر خیز شخصیت تھے انہوں نے قوم کے مصلح (Reformer)کا کردار بھی ادا کیا ، وہ تحریک آزادی کے قافلہ سالار بھی رہے اور میرِ کارواں بھی۔ وہ صاحب عزت اور لائق تکریم رہے آج بھی ان کی عزت و تکریم کا سلسلہ نسل درنسل قریہ قریہ چل رہا ہے۔ اس بطل جلیل نے10نومبر1961ء کو داعی اجل کو لبیک کہا۔اناللہ وانا الیہ راجعون۔
اللہ مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔