امریکا میں ہر چار سال بعد صدارتی انتخاب دیکھنے میں آتے ہیں۔ مقابلہ دو جماعتوں ڈیموکریٹک (انتخابی نشان گدھا ) اور ریپلنکن (انتخابی نشان ہاتھی ) کا ہے۔ یہ مقابلہ انسانوں کے درمیان ہوتا ہے مگر جیتا جانور ہی ہے۔جیت کبھی گدھے کے نشان کی اور کبھی ہاتھی کے نشان کی ہوتی ہے۔ اس بارہاتھی کی جیت اورگدھے کی ہار ہوئی ہے۔ ریپبلیکن امیروں کی جماعت ہے وہی ہاتھی پال سکتے ہیں۔اس بار ہاتھی نشان کے صدارتی امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ تھے۔امریکہ میں گورے کالے اور امیر غریب کی کہانیاں عام ہیں۔ان میں نمایاں فرق ہے،تعلیمی لحاظ سے کملا ہیرس ٹرمپ سے بہت بہتر تھی۔ لیکن ٹرمپ گورا چٹا اور پیسے والا صدارتی امیدوار تھا۔ پھر اس نے جیت کیلئے ہر پتہ کھیلا۔ کہا جاتا ہے ٹرمپ کی جیت میں بندوق کی گولی کا بھی اہم رول تھا جو انکو چھو کر گزر گئی تھی، اس سے ووٹرز کی ہمدردیاں انہیں ملی۔ کملا ہیرس نائب صدر رہ چکی تھی۔تجربہ کار سیاست دان ہیں جبکہ ڈونا لڈ ٹرنپ اس سے پہلے بھی خاتون ہنری کلنٹن سے جیت کر صدر رہ چکے تھے۔ یادش بخیر… ہمیں ٹرمپ سے ملنے کا اتفاق اس وقت ہوا جب ہمارے کلاس فیلوز نے انکے ہوٹل کا وزٹ کیا تھا۔ہوٹل پہنچنے پر سٹوڈنٹس گروپ کو ڈونالڈ ٹرمپ نے خود ویلکم کیا۔ ان کا یہ ہوٹل مین ہٹن نیویارک پارک ایونیو ٹرمپ ٹاور میں واقع ہے۔ طلباوطالبات جب ہوٹل پہنچے تواسی دوران ہوٹل میں کسٹیومر کا رش ہو گیا۔ ایسے میں ٹرمپ نے ہم سب سے معذرت کی اور خود ٹرالی پر مسافروں کا سامان رکھنا شروع کر دیا خیر اس دوران لوڈر نے یہ کام سنبھال لیا اور یہ دوبارہ ہماری طرف لوٹ آئے۔ معذرت کرتے ہوئے کہا کہ بزنس آل ویز فسٹ۔۔امریکہ میں آٹلاٹنک سٹی اور لاس ویگس میں ان کے کیسینو ہوٹل ہیں، ان کے ایک کیسینو کا نام تاج محل ہے۔ یہ بھارتی تاج محل کی کاپی ہے۔ ٹرمپ ہوٹلوں شاپنگ سینٹرز کیسینو کے مالک ہیں، یہ امریکن رسلنگ کے مقابلے اور دنیا کے حسن کے مقابلے میں بھی گہری دلچسپی رکھتے ہیں ان کی موجودہ بیگم بھی مقابلہ حسن میں نمبر ون کا تاج پہن چکی ہے۔ ہر نعمت ٹرمپ کے پاس ہے،ان میں سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ پہلے بولتے ہیں پھر سوچتے ہیں۔انہیں اپنی زبان پر کنٹرول نہیں۔ دل پھینک ہیں۔ رنگین مزاج کے مالک ہیں۔ لیڈیز اور جواں نسل میں بہت مقبول ہیں۔ اس الیکشن سے پہلے کہہ چکے تھے کہ اگر الیکشن ہارا تو میں اس الیکشن کو نہیں مانو گا۔ جب کہ کملا ہیرس نے پہلے سے ہی کہہ رکھا تھا میں الیکشن کے رزلٹ تسلیم کرونگی پھر ہار کو تسلیم کیا بھی۔کملاہیرس ہارورڈ یونیورسٹی اور سان فرانسیسکو یونیورسٹی کی تعلیم یافتہ ہیں۔وکیل ہیں۔جبکہ ڈونا ٹرمپ بزنس مین ہیں۔ یہ پڑھے لکھے کم مگر گڑے زیادہ ہیں۔ ان کی شخصیت میں وراٹی ہے۔ ان کی عادات ہمارے لیڈروں سے بہت ملتی جلتی ہیں۔ امریکا میں ووٹ مشین کے ذریعے ہوتے ہیں۔ مگر ٹرمپ صاحب اب اس کے حامی نہیں خلاف ہیں کہتے ہیں کہ مشین کے بجائے پیپر ووٹ ہونے چاہیے۔لگتا ہے پاکستان کے الیکشن سے خوش ہیں۔۔ یاد رہے امریکا کے ادارے اپنے مضبوط ہیں۔ہر کام امریکا کا صدر خود اپنی مرضی سے نہیں کرتا وہ اداروں کے تابع کام کرتے ہیں۔ وہ پالیساں ایک دن میں نہیں بناتے،بنانے میں سالوں سال لگاتے ہیں۔یہ کہنا کہ اس الیکشن میں فلاں جیتا تو ہماری ملکی سیاست بدل جائیگی۔ قیدی رہا ہو جائیں گے۔پھر اقتدار میں آ جائیں گے جب کہ ایسا نہیں ہے۔ایسی سوچ احمقوں کی جنت میں رہنے والوں کی تو ہو سکتی ہے کسی نارمل بندے کی نہیں۔یاد رہے صدر اپنے ملکی مفاد کیلئے کام کرتا ہے لہذا ڈونالڈ ٹرمپ صدر بن کر وہ اپنی ملکی پالیسیوں کے مطابق دوسرے ممالک سے تعلقات رکھیں گے اور کام کریں'گے یہ صدارت ٹرمپ کے لئے کانٹوں کی سیج سے کم نہ ہو گی۔ پہلے ہی اسرائیل کی جنگ نے امریکہ کے لیے کئی مسائل کھڑے کر رکھیں ہیں۔ احتیاط سے کام نہ لیا تو عالمی جنگ کا خطرہ ہو سکتا یے۔ ٹرمپ نے جیت کے بعد کہا ہے جنگوں میں شامل نہیں ہونگا انہیں روکوں گا۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو! پاکستان دنیا کے ایسے خطے میں ہے جہاں ہمارے بغیر ان کا گزارہ نہیں۔ اس سرزمین پاک پر قدرت نے ہمیں ہر چیز سے نواز رکھا ہے۔ مگر ہم نا شکرے ہیں، ہم خود ہی اس ملک کو سنوارنے کے بجائے بگاڑنے میں خوش رہتے ہیں،دشمن کے آلہ کار بن جاتے ہیں !!
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
یاد رہے الیکشن کے روز امریکا میں کوئی چھٹی نہیں ہوتی۔ لوگ خود وقت نکال کر ووٹ ڈالنے جاتے ہیں۔،ووٹ ڈال کر اپنا فرض نبھاتے ہیں۔ ایک اچھے شہری ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔ وہاں ہمیشہ فیئر اینڈ فری الیکشن ہوتے ہیں۔ مگر اب وہاں بھی دھاندلی کی آوازیں اور میں نہ مانو کا سلوگن سنائی دیتا ہے۔ الیکشن امریکا میں ہوئے اور جوش و خروش پاکستان اور بھارت پایا گیا۔ یہاں ٹرمپ کی جیت کی خوشی میں بنگڑے ڈالے گئے جبکہ بھارت نے نائب صدر کی جیت میں خوش ہوئے مگر کسی نے کسی کامنہ میٹھا نہ کیا اور نہ کرایا۔ جبکہ خوش دونوں ممالک کے لوگ ہیں۔ پاکستان میں ٹرمپ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ پہلا فارن کا دورہ یہاں کا کریں گے اور سیدھا جیل جائیں گے۔ پوچھا وہ کیوں۔ کہا ہماری وجہ سے تو یہ الیکشن جیتا ہے۔جیل جانے کا سن کر فوری خیال آیا کہ ٹرنپ کو نیویارک کی عدالت سے سزا ہو چکی ہے۔اس سزا پر عمل ہونا ابھی باقی ہے۔ اس سزا کو نیویارک کا گورنر معاف کر سکتا ہے مگر یہاں تو گورنر ڈیموکریٹک کا ہے۔وہ تو معاف نہیں کرے گا اگر اس نے سزا برقرار رکھی تو ٹرنپ صدر نہیں رہے گا انکی جگہ نائب صدر امریکا کے صدر بن جائیں گے۔ نائب صدر کی بیگم خاتون اول بن جائے گی جو بھارتی نثزاد امریکی شہری ہے۔ اسی وجہ سے بھارتی خوش ہیں۔ یوں تو امریکی بڑے لیبرل ہیں مگر عورت کو اپنا حکمران نہیں بناتے۔ کہا جاتا ہے کملا ہیرس کے ہارنے کی وجہ اس کا بلیک آبادی سے ہونا اور خاتون ہونا ہے۔ یوں تو امریکا میں بے شمار تعلیمی ادارے یونیورسٹیاں ہیں مگر یہ ووٹ اسے ڈالتے ہیں جو کم پڑھا لکھا ہو مگر گورا چٹا اور امیر ہو۔ ٹرمپ کی جیت کی ایک وجہ موجودہ صدر جو بائیڈن بھی تھے جنھوں نے کملاہیرس کو لیٹ صدارتی امیدوار کھڑا کیا۔ ٹرنپ وہ امریکی صدر ہیں جنھوں نے دونوں مرتبہ لیڈیز سے مقابلہ کیا اور انہیں شکست سے دوچار کیا اور صدر منتخب ہوئے۔ لگتا یہی ہے امریکن پڑھے لکھوں اور لیڈیز خواہ وہ گوری ہو یا کالی اسے ملکی صدر بنانا پسند نہیں کرتے۔ ٹرنپ جیسی عادتوں کے مالک بندے اب دنیا کے دوسرے ممالک ، شہروں، دیہات گلی کوچوں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ ٹرمپ صدر کامیاب ہو چکے ،اب دیکھتے ہیں جیسے انکے حالات ہیں اب کس کی قسمت میں امریکی صدر رہ کر کام کرنا لکھ رکھا ہے'' آگے آگے دیکھے ہوتا ہے کیا''