آپ 1905ء میں کیٹر، پتن شیر خان پلندری ضلع پونچھ میں مولانا نصیر الدین بن مولانا خان محمد بن حافظ محمد باقر کے ہاں پیدا ہوئے۔ آپ نسباً علوی تھے اور قطب شاہی اعوان خانوادے سے تعلق تھا۔آپ کا خاندان کئی پشتوں سے علمی ورثہ کا حامل چلا آرہا تھا،دینی سیادت کے ساتھ اللہ نے آپ کے گھرانے کو دنیاوی وقار سے بھی نوازا تھا۔ مغلیہ دور میں ان کے پاس قضاۃ کا منصب تھا ان کے بعد مہاراجہ کشمیر کے دور میں آپ کے خاندان کو ڈوگرہ راج کی طرف سے استثنائی مقام حاصل رہا۔ آپ کے والد مولانا نصیر الدین علم الصرف اور علم النحو میں مہارت تامہ کے حامل تھے۔ خصوصاً صرف کی کتاب قانونچہ کھیوالی کی تدریس میں ملکہ رکھتے تھے۔ اسی طرح علم میراث میں بھی کمال پایا گرد و نواح میں سراجی پڑھانے میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا۔
علامہ محمد شریف کاشمیری نے اپنے نانا محمد حسین سے ناظرہ قرآن کریم پڑھا اور مقامی سکول میں پرائمری تک تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد اپنے والد گرامی سے صرف و نحو کی ابتدائی کتب پڑھیں پھر کہوٹہ میں دارالعلوم دیوبند کے فضلاء مولانا عبدالحق اور مولانا غلام علی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ میں پہلے قرآن کریم کا ترجمہ پڑھنا چاہتا ہوں، انھوں نے فرمایا پہلے کتابیں پڑھو گے تو ہی ترجمہ کا پتا چلے گا لیکن آپ نے ترجمہ ہی پر اصرار کیا تو جہاندیدہ اساتذہ نے آپ کا یہ مطالبہ قبول فرما لیا۔الحمد سے ترجمہ کا آغاز ہوا جب انعمت پر پہنچے تو استاد صاحب نے فرمایا یہ انعمت ہے اس کے یہ معنی ہیں اگر یہ ’انعمت‘ ہو تو دوسرا معنی ہوگا۔اس پر آپ نے سوال کیا کہ یہ کیسے معلوم ہوگا! تو استاد محترم نے فرمایا اسی وجہ سے ہم کہتے تھے کہ پہلے کتابیں پڑھو۔ جس پر آپ نے کتابیں پڑھنے کا آغاز کیا اور ایک سال صرف و نحو پڑھا۔ دوسرے سال آپ نے مدرسہ اشاعت العلوم چکوال میں داخلہ لیا اور مولانا حبیب احمد شاہ سے مستفید ہوئے۔ یہاں اس وقت مجلس احرار اسلام کے مولانا گل شیر شہید بھی ہیں زیر تعلیم تھے۔ یہیں علامہ صاحب کا ان سے تعلق خاطر بنا۔ تیسرے سال آپ عازم دیوبند ہوئے شیخ الادب مولانا اعزاز علی نے امتحان کے بعد داخلہ کی سفارش کی، یہاں دو سال تعلیم حاصل کی۔ تیسرے سال دوران تعلیم بیماری کی وجہ سے دارالعلوم دیوبند چھوڑنا پڑا، پھر آپ جامعہ رحیمیہ نیلا گنبد آئے اور مولانا محمد علی ہندوستانی کی خدمت میں ایک سال گزارا، اس کے بعد آپ جامعہ فتحیہ تشریف لائے اور جامع المعقول والمنقول مولانا مہر محمد اچھروی، سید دوران شاہ اور دیگر اساتذہ سے بھر پور مستفید ہوئے۔
اس دوران آپ کبھی کبھار سماع کے لیے مدرسہ قاسم العلوم شیرانوالہ گیٹ میں مولانا شمس الحق افغانی کے درس میں چلے جاتے۔ جامعہ فتحیہ میں دو سال تعلیم کے بعد آپ پیپلاں میانوالی میں مولانا غلام محمود کی خدمت میں حاضر ہوئے اور علم ہندسہ و علم فلسفہ میں کسب فیض کیا۔ آپ مولانا افغانی سے بہت متاثر تھے اس لیے پیپلاں کے بعد ان سے استفادہ علمی کا شوق آپ کو سجاول،سندھ لے گیا جہاں آپ مولانا افغانی سے خوب مستفید ہوئے۔ منطق اور فلسفہ میں مزید کسب کمال کا شوق آپ کو مولانا معین الدین اجمیری کی خدمت میں اجمیر شریف لے آیا۔ آپ نے مولانا اجمیری سے درخواست کی تو انھوں نے اپنی پیرانہ سالی کی وجہ سے معذرت کی اور آپ کا شوق دیکھتے ہوئے اپنے استاد مولانا حکیم برکات احمد ٹونکی کے نام سفارشی رقعہ لکھ دیا۔انھوں نے امتحان میں باصلاحیت پاکر درس میں شرکت کی اجازت مرحمت فرمادی۔ یہاں آپ کا قیام تقریباً ایک برس رہا اس کے بعد آپ مولانا مفتی کفایت اللہ کی خدمت میں مدرسہ امینیہ دہلی حاضر ہوئے اور بخاری شریف و ترمذی شریف کا سماع کیا۔
ِیوں آپ نے تقریباً 12 سال کا عرصہ تحصیل علم کے لیے مختلف شہروں کے مختلف مدارس میں گزارا۔ اور اس سارے عرصہ کے دوران پڑھائی میں اتنے مگن رہے کہ گھر جانے کا خیال تک نہ آیا اور نہ ہی ان سے کوئی رابطہ رہا۔ آپ کے تعلیمی سفر سے قبل آپ کی نسبت ٹھہر چکی تھی لیکن آپ کی اتنی غیوبت سے آپ کے انتقال کا قیاس کر کے آپ کی منسوبہ کا کہیں اور نکاح کر دیا گیا۔12 سال بعد جب آپ گھر تشریف لائے تو دوسری جگہ رشتہ ازدواج سے منسلک ہوئے۔ تحصیل علم سے فراغت کے بعد آپ نے جالندھر کے ایک مدرسہ سے تدریس کا آغاز کیا۔ اسی دوران مولانا شمس الحق افغانی ریاست قلات میں وزیر معارف مقرر ہوئے تو انھوں نے آپ کو بلا کر نائب وزیر معارف مقرر فرمایا۔آپ نے تقریباً چھے سال یہ خدمت سر انجام دی۔ 1940ء کے اوائل میں مہتمم دارالعلوم دیوبند قاری محمد طیب نے آپ کو دارالعلوم طلب فرمایا وہاں آپ سات سال تک درجہ علیا کے اسباق پڑھاتے رہے۔
قیام پاکستان کے بعد آپ تین سال دارالعلوم پلندری، آزاد کشمیر میں شیخ الحدیث.کے منصب پر فائز رہے۔ 1951ء میں مولانا خیر محمد جالندھری کی دعوت پر جامعہ خیر المدارس ملتان تشریف لائے۔ اس دوران 1958ء سے پہلے تک آپ نے دو سال دارالہدیٰ ٹھیڑی، سندھ اور دو سال قاسم العلوم ملتان میں بھی تدریس کی۔ 1958ء سے تادم آخر آپ جامعہ خیر المدارس سے ہی منسلک رہے اور تادم واپسیں درس حدیث شریف کو حرزِ جاں بنائے رکھا۔ آپ علامہ انور شاہ کاشمیری کے نامورتلامذہ کے سلسلہ کی آخری کڑی تھے۔ تدریس میں مہارتِ تامہ کے ساتھ آپ ایک بہترین خطاط بھی تھے۔ آپ کو قومی کمیٹی برائے مدارس کا ممبر منتخب کیا گیا لیکن چند اجلاسوں کے دوران جب آپ نے دیکھا کہ یہاں تو نشستند و گفتند و برخاستند کے سوا کچھ نہیں تو آپ مستعفی ہوگئے۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک بیٹے مولانا محمد مسعود کاشمیری اور بیٹیوں سے نوازا۔ مولانا محمد مسعود کاشمیری خیر المدارس ملتان کے فاضل تھے۔ انھوں نے چیچہ وطنی میں ایک مدرسہ قائم کیا تھا۔وہ درس وتدریس میں کمال کے ساتھ میدان کارزار میں بھی کسی سے کم نہ تھے۔ مسلسل آٹھ برس تک ہر سال کئی کئی ماہ جہاد افغانستان میں گزارتے۔ انھوں نے 1988ء کو عید الاضحی کے بعد افغان مجاہدین کی مدد و نصرت کے دوران بارودی سرنگ کے دھماکے میں جام شہادت نوش کیا۔ علامہ محمد شریف کاشمیری نے جس صبر و تحمل سے اکلوتے جوان بیٹے کی شہادت کا صدمہ سہا وہ بیان سے باہر ہے۔ علامہ محمد شریف کاشمیری اپنی ساری زندگی حدیث نبوی کی خدمت میں بسر کر کے 11 شوال 1410ھ کو خالق حقیقی سے جا ملے۔