آج حکومت اور عدلیہ کے درمیان بھرپور محاذ آرائی کا تاثر دیا جا رہا ہے جس میں قطعاً صداقت نہیں ہے۔ عدالت نہ صرف اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے بے لاگ اور بلا امتیاز انصاف کی فراہمی کے لئے کوشا ں ہے بلکہ بعض معاملات میں انتہائی صبر، تحمل اور برد باری کا بھی مظاہرہ کر رہی ہے۔ کچھ مقتدر حلقوں کی جانب سے عدلیہ کیساتھ محاذ آرائی کا تاثر جان بوجھ کر محض عدلیہ کو بدنام کرنے اور خود کومظلوم ثابت کرنے کے لئے پھیلایا جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ نے این آر او کے خلاف فیصلہ گزشتہ دسمبر کے وسط میں دیا تھا۔ اس پر حکومت کی طرف سے عمل درآمد تو کجا اس کے برعکس سزا یافتہ لوگوں کو نوازنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا اور پہلے سے موجود سزا یافتگان کو حکومت نے مکمل تحفظ فراہم کیا۔ آج حکومت کا پورا زور آئین کے آرٹیکل 248 کے تحت صدر کیلئے استثنیٰ پر ہے۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کہتے ہیں کہ ‘ صدر آصف علی زرداری کو آئین کے آرٹیکل 248 کے تحت تحفظ حاصل ہے۔ اگر پارلیمنٹ ان سے یہ استثنیٰ واپس لینا چاہتی ہے تو آئین میں ترمیم کرکے واپس لے سکتی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم نے پہلے بھی عدالتوں کے فیصلے تسلیم کئے ہیں‘ آئندہ بھی کرینگے ۔۔۔ پارلیمنٹ کی اتھارٹی اپنی جگہ ، لیکن سپریم کورٹ کو کسی بھی معاملے میں نوٹس لینے اور فیصلہ دینے کا آئین کے تحت اختیار حاصل ہے۔ پارلیمنٹ کسی بھی قسم کی آئین سازی اور قانون سازی کر سکتی ہے۔ اگر اس میں کوئی خامی رہ جائے تو وہ کیسے دور ہوگی؟ اس کا سب کو علم ہے۔ بگڑے معاملات عدالتیں ہی درست کرتی ہیں اور پھر عدلیہ کا پہلا فیصلہ حتمی نہیں ہوتا اپیل کے ذریعے اس میں تبدیلی اور ترمیم کی گنجائش ہوتی ہے۔ سپریم کورٹ گزشتہ دس ماہ سے حکومت سے کہہ رہی ہے سوئس عدالتوں کو زرداری کے خلاف کلوز کئے گئے مقدمات کھولنے کے لئے خط لکھے۔ عدالت میں پیش ہو کر بعض دفعہ یہ بھی کہا گیا کہ خط لکھ دیا گیا ہے۔ بالآخر حقیقت کھلی کہ خط نہیں لکھا گیا۔ سپریم کورٹ نے کہا اب لکھو تو اس میں ٹال مٹول سے کام لیا گیا۔ ایک بار تو سوئس مقدمات کے حوالے سے دستاویزات کی فراہمی پر وزیرِ قانون نے کہہ دیا Over my dead body ۔ اب حکمرانوں نے سپریم کورٹ کا فیصلہ ماننے سے صریحاً انکار دیا ہے۔ وزارت قانون کی طرف سے سوئس حکام کو خط لکھنے کے لئے جو سمری بھجوائی گئی ہے وہ بھی توہین عدالت کے زمرے میں آتی ہے۔ ذرائع کے مطابق وزارت قانون کی جانب سے وزیراعظم کو بھیجی گئی سمری میں لکھا ہے’’ سوئس مقدمات بند ہو چکے ہیں، ان کو کھولنے کی ضرورت نہیں۔ صدر پارلیمنٹ کا حصہ ہیں اور ان کو استثنیٰ بھی حاصل ہے، ان کے خلاف دوسرے ملک کی حکومت کوخط لکھنا خودمختاری کیخلاف ہے۔ آئین کے تحت پارلیمان خود مختار اور سپریم ہے اور اس کی خود مختاری کو دائو پر نہیں لگایا جا سکتا۔ صدر مسلح افواج کے سپریم کمانڈر ہیں، انکے خلاف دوسری حکومت کو نہیں لکھا جا سکتا، ایسا کرنا آئین کی خلاف ورزی ہو گی۔‘‘ اٹارنی جنرل مولوی انوارالحق نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ سوئس کیسزکے حوالے سے وزارت قانون کی طرف سے بھیجی گئی سمری وزیراعظم نے منظورکر لی ہے۔ اس سمری کی وصولی اور منظوری کے بعد ہی وزیراعظم گیلانی سینیٹ میں کھل کر گرجے اور برسے ہیں۔ حکومت کی طرف سے عدالتِ عظمیٰ کے احکامات کو نظر انداز کرنے کا اندازہ کیجئے،گزشتہ سماعت کے موقع پر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے سیکرٹری قانون سے صدر زرداری کے خلاف سوئس مقدمات سے متعلق دریافت کیا تھا۔ وفاقی سیکرٹری قانون مسعود چشتی نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ مصروفیات کے باعث سوئس حکام کو خط لکھنے میں پیش رفت نہیں ہو سکی اسلئے وقت دیا جائے جس پر عدالت نے انہیں سوئس مقدمات کی بحالی کاخط لکھنے کیلئے چوبیس ستمبر تک کی مہلت دے دی تھی۔ اس مہلت کے اختتام ہر ایک نیا شوشہ چھوڑ دیا گیا۔ چور نالے چتر کے مصداق وزیر اطلاعات فرماتے ہیں کہ چیف جسٹس ناراض ہیں تو ان کے پاس جانے کو تیار ہیں۔ تاہم حکومت اب پھر اکتوبر تک وقت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔
چیف جسٹس کے رویے سے سب آگا ہ ہیں ۔ ان کو کسی سے ملنے کا شوق ہے نہ وہ کسی کو اپنے پاس بلانا چاہتے ہیں۔ یہ تو پیپلز پارٹی ان کو پارٹی بنا کر اپنے سربراہ کے گناہ معاف کرانا چاہتی ہے۔ صدر اور گورنرز کو اپنے ان اقدامات سے استثنیٰ حاصل ہے جو انہوں نے اپنے عہد میں کئے۔ ماضی کا حساب تو اخلاقی لحاظ سے بھی دینا چاہیئے۔ خود کو الزامات سے عدالتوں سے کلیئر کرانے سے اپنی ساکھ بہتر ہوگی۔ جہانگیر بدر بے گناہ تھے عدالت نے ان کو بری کر دیا ۔ کئی مقدمات میں رحمان ملک بھی سرخرو ہو چکے ہیں۔ اگر زرداری صاحب پر سیاسی بنیادوں پر مقدمات بنے تھے تو وہ اور ان کی پارٹی استثنیٰ پر اصرار کیوں کرتی ہے؟عدالتِ عظمیٰ کے احکامات کے انکار سے سنگین نتائج نکل سکتے ہیں۔آئین کے آرٹیکل 204 میں لکھا ہے کہ عدالت کے احکامات نہ ماننا بد ترین توہین ہے۔ جو حکومت اپنے ملک کی سب سے بڑی عدالت کے احکامات کی نفی کرتی ہے وہ کبھی چل نہیں سکتی۔ جس ملک میں عدالتیں بے دست و پا ہو جائیں وہ ملک ہی نہیں ہوتا، ریاست کے ستونوں میں سے ایک اہم ستون سپریم کورٹ بھی ہے۔جمہوریت بڑی مشکل اور قربانیوں سے بحال ہوئی ہے جس میں پیپلز پارٹی کا بھی حصہ ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں کی تذلیل کرکے پیپلز پارٹی خود اپنے اور جمہوریت کی راہ میں کانٹے بچھا رہی ہے جس سے اسکی سیاست کا دامن تار تار ہو سکتا ہے۔ جمہوریت اور خود پیپلز پارٹی کی سیاسی بقاء کیلئے ضروری ہے کہ یہ عدالتی احکامات پر اسکی روح کے مطابق عملدرآمد کرے۔ سوئس حکام کو مقدمات کھولنے کے حوالے سے خط لکھنے سے کوئی قہر نہیں ٹوٹ پڑیگا۔ شخصیات مقدم نہیں ، ادارے اور قوم و ملک اہم ہیں۔
چیف جسٹس کے رویے سے سب آگا ہ ہیں ۔ ان کو کسی سے ملنے کا شوق ہے نہ وہ کسی کو اپنے پاس بلانا چاہتے ہیں۔ یہ تو پیپلز پارٹی ان کو پارٹی بنا کر اپنے سربراہ کے گناہ معاف کرانا چاہتی ہے۔ صدر اور گورنرز کو اپنے ان اقدامات سے استثنیٰ حاصل ہے جو انہوں نے اپنے عہد میں کئے۔ ماضی کا حساب تو اخلاقی لحاظ سے بھی دینا چاہیئے۔ خود کو الزامات سے عدالتوں سے کلیئر کرانے سے اپنی ساکھ بہتر ہوگی۔ جہانگیر بدر بے گناہ تھے عدالت نے ان کو بری کر دیا ۔ کئی مقدمات میں رحمان ملک بھی سرخرو ہو چکے ہیں۔ اگر زرداری صاحب پر سیاسی بنیادوں پر مقدمات بنے تھے تو وہ اور ان کی پارٹی استثنیٰ پر اصرار کیوں کرتی ہے؟عدالتِ عظمیٰ کے احکامات کے انکار سے سنگین نتائج نکل سکتے ہیں۔آئین کے آرٹیکل 204 میں لکھا ہے کہ عدالت کے احکامات نہ ماننا بد ترین توہین ہے۔ جو حکومت اپنے ملک کی سب سے بڑی عدالت کے احکامات کی نفی کرتی ہے وہ کبھی چل نہیں سکتی۔ جس ملک میں عدالتیں بے دست و پا ہو جائیں وہ ملک ہی نہیں ہوتا، ریاست کے ستونوں میں سے ایک اہم ستون سپریم کورٹ بھی ہے۔جمہوریت بڑی مشکل اور قربانیوں سے بحال ہوئی ہے جس میں پیپلز پارٹی کا بھی حصہ ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں کی تذلیل کرکے پیپلز پارٹی خود اپنے اور جمہوریت کی راہ میں کانٹے بچھا رہی ہے جس سے اسکی سیاست کا دامن تار تار ہو سکتا ہے۔ جمہوریت اور خود پیپلز پارٹی کی سیاسی بقاء کیلئے ضروری ہے کہ یہ عدالتی احکامات پر اسکی روح کے مطابق عملدرآمد کرے۔ سوئس حکام کو مقدمات کھولنے کے حوالے سے خط لکھنے سے کوئی قہر نہیں ٹوٹ پڑیگا۔ شخصیات مقدم نہیں ، ادارے اور قوم و ملک اہم ہیں۔