ہر زماں اور اکمالِ دیگرے
ہر زماں اور اجمالِ دیگرے
یعنی اللہ تعالیٰ کا اس کائنات ارضی میں ہر وقت‘ ہر لحظہ نیا کمال اور نیا جمال نظر آتا ہے۔ انسانی تاریخ میں صحیح اسلامی تقاضوں کی روشنی میں جو روشن راستے دکھائے وہ اسلام کی برکتوں اور فیوض سے حاصل ہوئے۔ عرض کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ پاکستان عزیز از جان کی تخلیق میں تاریخی نقطہ نظر سے مدینہ ثانی کی حیثیت میں تخلیق ہوا اور پاکستان نے تاریخ کے 65 برس گزار لئے ہیں اور حضرت قائداعظمؒ کے بقول قیامت تک زندہ رہنا ہے پاکستان کی تخلیق کرنے والوں نے پاکستان کو اللہ تعالیٰ کی امانت اور حضور پاک کی امانت سمجھ کر تخلیق کیا اور پاکستان چونکہ مشیتِ ایزدی ہے لہٰذا اس ملک خداداد میں وہ شخصیات موجود ہیں جنہوں نے خون جگر دے کر اس مدینہ ثانی کو روحانی، دینی، اسلامی، نظریاتی رنگ و روغن سے ہمکنار کیا اور حسین و جمیل خوشبودار پھولوں کے شبستانوں میں بدل دیا۔ حیرت ہے کہ وہ کون کون سے فرشتہ صفت اور طلسماتی شخصیات تھیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے خاص فضل و کرم سے اس مدینہ ثانی کے استحکام و استقلال کے لئے شبانہ روز اپنی محنتوں، کاوشوں، سرگرمیوں اور بے شمار تکالیف اور عذابات کو برداشت کرنے اپنے ملک کے استحکام اور اس کے دوام کے لئے ہمہ وقت اپنا خون جگر صرف کرتے رہے۔ پاکستان کی تخلیق کا تجزیہ کیا جائے تو تاریخی نقطہ نظر سے 65 برسوں میں مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اللہ تعالیٰ نے پاکستانیوں کے قلوب و اذہان کی بے ثناہ قوتوں اور اعلیٰ صلاحیتوں سے مزین کیا اور آج پاکستان ایٹمی طاقت ہونے کے ناطے کوہ ہمالیہ کی طرح اپنی جڑوں کو مضبوط زمین میں گاڑ چکا ہے۔ ہر شعبہ زندگی میں کمال و جمال یقیناً نظر آتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ قومی، سیاسی، معاشی لحاظ سے نحوست و نکبت سے ہمکنار نظر آتا ہے اور پاکستان کے سنہری اور یاقوتی رنگ کو فنا کرکے رکھ دیا گیا ہے۔ ایک ایسا شعبہ جو تمام شعبوں سے اہم وہ شعبہ صحافت ہے جس کے حوالے سے آج بالخصوص اس ناچیز نے اپنے خیالات کا اظہار کرنا ہے۔ ہم نے یہ پڑھا، دیکھا، سوچا، سمجھا اور جانچا ہے کہ کون کون سے ادارے اس پاکستان عزم عالیشان کی تعمیر و ترقی اور استحکام و استقلال کا باعث ہیں اور اس میں کون کون سی شخصیات نے کیا کیا کارہائے نمایاں انجام دئیے تو مجھے اپنے انتہائی قابل احترام بزرگ جنہیں میں نظریاتی طور پر محسن پاکستان تصور کرتا ہوں اور یہ کوئی ایک واجبی سی قلم آرائی نہیں، دل کی اتھاہ گہرائیوں سے میں یہ بات بالایمان کہنے کو تیار ہوں کہ سیاسی اور فوجی آمروں کے ناعاقبت اندیشانہ اور غیر قومی پالیسوں کے جو نتائج برآمد ہوئے اور ان نتائج سے اس پاک سرزمین کو جو نقصانات پہنچے اس سے یہ مملکت خداداد کئی صدیاں پیچھے چلی گئی اور وہ ممالک جو پاکستان کے بعد معرض ظہور میں آئے وہ ترقی یافتہ ملک کہلائے ان ہی منافقانہ، جابرانہ، ظالمانہ اور احمقانہ سیاست کے سامنے جس شخصیت نے اپنی قلم کو تلوار کے طور پر استعمال کیا انہیں پچھلے دنوں پنجاب یونیورسٹی نے ڈاکٹر کے خطاب سے نوازا اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری کو اعزاز ہے اور پنجاب یونیورسٹی کو اعزاز ہے کہ انہوں نے پاکستان کے شعبہ صحافت کے آسمان جنہیں مجید نظامی کے اسم گرامی سے یاد کیا جاتا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے پیش کی۔
بڑے غور و خوض کے بعد بڑے تفکر و تدبر کے بعد یہ خیال ذہن میں ابھر کر سامنے آتا ہے کہ جب کسی قوم کو مایوسیوں، ناکامیوں، دل شکستگیوں اور قعرِ مذلت میں مبتلا قوم کے تحفظ کا فریضہ انجام دینے والی شخصیات کہاں ناپید ہو گئیں فقط ایک فرد واحد جس نے جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کا نعرہ لگایا اور ثابت کیا کہ ان کا وجود باسعود بذات خود پاکستان اور صرف پاکستان ہے اگر آج ہم بحیثیت قوم یہ سبق دوبارہ اپنے دل و جان میں موجزن کر لیں کہ پاکستان کا وجود اور ہمارا وجود ایک ہی حیثیت کا مالک ہے تو ہم پاکستان کے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں ترقی کر سکتے ہیں بشرطیکہ قوم میں علمی، انسانی، تاریخی اور نظریاتی شعورو ادراک پیدا ہو وگرنہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ داستان تک بھی نہ ہو داستانوں میں، چنانچہ حضرت علامہ اقبالؒ نے فرمایا
در جہاں آغاز کار از حرف لاست
ایں نخستیں منزل مرد خداست
جس کا مفہوم یہ ہے کہ دنیا میں کام کا آغاز لا سے ہوا اور یہ مرد خدا کی پہلی منزل ہے۔ ژولیدہ فکری، قنوطیت پسندانہ نظریات اور مایوسانہ افکار کی جب تک نفی نہ کی جائے مردانِ خدا اپنے فرائض انجام نہیں دے سکتے۔
ڈاکٹر مجید نظامی .... جلوہ اعتبار و اعتماد
Oct 11, 2012