ریاست کے اندر ریاست نہ بنائی جائے : خضدار چلتے ہیں دیکھیں ہمیں کون مارتا ہے : چیف جسٹس

کوئٹہ (بیورو رپورٹ + نوائے وقت نیوز + ثناءنیوز) سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں بلوچستان امن و امان کیس کی سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے کی۔ سماعت کے دوران عدالت نے سیکرٹری دفاع کو راہداریوں اور اسلحہ لائسنس کی تفصیلات پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ریاست کے اندر ریاست نہ بنائی جائے۔ چیف جسٹس نے وزارت دفاع کے نمائندے کمانڈر شہباز سے کہا کہ جنہوں نے کابلی گاڑیاں چلانے اور اسلحے کی راہداریاں دی ہیں وہ عدالت کیساتھ تعاون کیوں نہیں کر رہے۔ کمانڈر شہباز کم از کم اپنے منہ سے کہی بات پر عمل کریں۔ چیف جسٹس نے کمانڈر شہباز سے کہا کہ راہداریوں کی فہرست فراہم کریں۔ کمانڈر شہباز نے جواب دیا کہ سیکرٹری دفاع نے آرڈر جاری کر دیا ہے۔ چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ تعاون نہیں کر رہے۔ ہم نے حکم جاری کرنا ہے سب اس میں لکھیں گے۔ کمانڈر شہباز نے کہا شاید میں اپنی نالائقی کی وجہ سے سمجھ نہیں پا رہا۔ جیسے ہی مجھے فہرستیں ملتی ہیں آپ کو دے دیتا ہوں۔ چیف جسٹس نے آئی جی بلوچستان سے کہا کہ خضدار چلتے ہیں آپ ہمارے ساتھ ہیں۔ پھر دیکھتے ہیں کون کلاشنکوف سے مارتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جن کو راہداری جاری ہوئی وہی ہمیں ماریں گے۔ آپ کس قسم کے آئی جی پولیس ہیں آپ کو کچھ معلوم نہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ غیر قانونی اسلحہ اور راہداریوں کی فہرست نہیں دی گئی یہ توہین عدالت کا کیس بن رہا ہے ۔ لوگ اسلحہ لے کر دندناتے پھر رہے ہیں۔ سیکرٹری دفاع 11 بجے تک راہداریوں کی فہرست پیش کریں یا خود پیش ہوں۔ چیف جسٹس نے وزارت دفاع کے نمائندے کمانڈر شہباز سے کہا کہ بلوچستان کا مسئلہ حل کرنے میں آپ لوگ تعاون نہیں کر رہے۔ غیر قانونی اسلحہ اور گاڑیوں کی راہداریوں پر آج حکم نہ دیا گیا تو یہ عمل جاری رہے گا۔ آپ ایجنسیز کو جو کہتے ہیں وہ کچھ اور کرتے ہیں۔ قانون پر عملدرآمد ہوتا تو آج حالات اتنے خراب نہ ہوتے۔ انہوں نے آئی جی بلوچستان سے کہا کہ خضدار بازار گذشتہ ایک ماہ سے بند ہے۔ لوگ ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن رہے ہیں اور آپ کو پتہ ہی نہیں۔ چیف جسٹس نے کمانڈر شہباز سے کہا کہ وزارت دفاع نے اسلحہ اور گاڑیوں کی راہداریاں دی ہیں اور عدالت کے ساتھ تعاون نہیں کر رہے۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کمانڈر شہباز کو ہدایت کی کہ اگر انہوں نے کسی کو اسلحہ اور گاڑی کی این او سی دی ہے تو واپس لی جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کمانڈر شہباز گاڑیاں چیف سیکرٹری یا کسٹمز کے حوالہ کر دیں اس پر کمانڈر شہباز نے کہا کہ معلومات حاصل کرنے کے لئے راہداریاں دی گئیں، وہ ایجنسی کا م¶قف بند لفافے میں پیش کریں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ خدا کے لئے ریاست کے اندر ریاست نہ بنائیں۔ چیف جسٹس نے آئی جی پولیس سے کہا کہ وفاق سے ملنے والے افسروں کی تعیناتی کیوں عمل میں نہیں لائی گئی۔ صوبے میں بدامنی پھیلی ہے سکیورٹی ناقص ہے، پولیس کی کارکردگی ناقص ہے۔ چیف جسٹس نے آئی جی پولیس پر اظہار برہمی کرتے ہوئے پولیس افسروں کی تعیناتی کے حوالہ سے فہرست طلب کر لی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ صوبہ میں امن و امان قائم ہی کرنا چاہتے ہیں نہ ہی آپکے ان اقدامات سے جو آپ کر رہے ہیں اس سے امن و امان قائم ہو گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ فوری طور پر جن ڈی سی اوز کو ڈی پی او کا چارج دیا گیا ہے انہیں ہٹایا جائے اور دیگر صوبوں سے آنے والے افسروں کو لگایا جائے۔ عدالتی معاون سلمان اکرم راجہ نے بلوچستان کی صورت حال پر کمیشن قائم کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیس کی دو سال سے سماعت کر رہے ہیں اب ہم روزانہ اس کیس کی سماعت کریں گے۔ مزید کسی کمیشن کی ضرورت نہیں اصل بات یہ ہے کہ حکومت میں امن و امان قائم کرنے کا ارادہ ہی نہیں۔ متعدد بار ہم نے احکامات جاری کئے ان پر عملدرآمد نہیں کیا گیا اب ہم اس معاملہ کو اس طرح نہیں چھوڑیں گے۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ جتنا وقت دیا جائے یہ اس پر عملدرآمد کریں نہیں تو جو کچھ ہو گا وہ آئین اور قانون کے دائرہ میں کیا جائے گا۔ عدالتی وقفہ کے بعد بھی کمانڈر شہباز گاڑیوں اور اسلحہ سے متعلق راہداریوں کی فہرستیں فراہم کرنے میں ناکام رہے۔ ان کا عدالت میں کہنا تھا کہ آج بلوچستان کے مسئلہ پر اجلاس ہے ایک دن کا وقت دے دیں تاکہ ہم مکمل تفصیلات عدالت کو فراہم کر سکیں۔ اس پر جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ ہمیں دیوار سے لگا دیا گیا ہے ہم حکم جاری کریں گے۔ شاید جمعرات کے اجلاس کی ضرورت ہی نہ رہے۔ اے این این کے مطابق چیف جسٹس نے گاڑیوں کو غیر قانونی راہداریاں منسوخ کرنے کا حکم دیا۔ آن لائن کے مطابق ایک ماہ سے ضلع خضدار کی بندش کو آئین کے نفاذ سے انکار قرار دیتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ بلوچستان بدامنی کیس سے متعلق م¶ثر عبوری حکم نامہ آج جاری کیا جائے گا۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...