اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ/ آن لائن) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے قومی احتساب کمشن کے بل 2012ءکی 38 میں سے 10شقوں کی منظوری دے دی، مسلم لیگ (ن) کی ایک کے سوا تمام تجاویز مسترد کردی گئیں، احتساب یکم اکتوبر 2002ءسے شروع کرنے پر اتفاق ہوا۔ چیئرمین احتساب کمشن کا انتخاب قائمہ کمیٹی قانون و انصاف کرے گی جس کیلئے وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر دو دو نام تجویز کرینگے، دوسری جانب مسلم لیگ (ن) نے بل مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت آئی تو وہ قانون تبدیل کرینگے۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کا اجلاس قائم مقام چیئرمین ریاض فتیانہ کی زیرصدارت ہوا اجلاس میں قومی احتساب کمیشن بل 2012ءکا جائزہ لیا گیا جب اجلاس شروع ہوا تو مسلم لیگ (ن) نے اعتراض کیا کہ کمیٹی کے کل 20ارکان میں سے مسلم لیگ (ن) کے صرف چار ارکان ہیں جبکہ کمیٹی میں حکومت کے 15 ارکان ہیں۔ وزیر قانون فاروق ایچ نائیک وزیر مذہبی امور سید خورشید شاہ اور وزیر دفاع نوید قمر خصوصی طور پر کمیٹی میں موجود رہے۔ مسلم لیگ (ن) نے تجویز دی کہ اس بل کے نفاذ کی مدت کا اعلان نہیں ہونا چاہئے اس کا اطلاق ماضی کی کرپشن پر بھی ہونا چاہئے تاہم رائے شماری کے ذریعے ان کی تجویز مسترد ہوگئی اور فیصلہ ہوا کہ بل کا نفاذ یکم اکتوبر 2002ءسے بھی ہوگا نئے احتساب بل کا دائرہ کار ججوں اور فوج تک وسیع کرنے کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) کی تجویز رائے شماری کے ذریعے مسترد ہوگئی نئے احتساب بل کے تحت احتساب کمشن کے چیئرمین کا انتخاب قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کرے گی اس مقصد کیلئے وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر دو دو نام تجویز کرکے قائمہ کمیٹی کو بھجوائیں گے جس پر کمیٹی چودہ دن میں فیصلہ کرے گی قائمہ کمیٹی چودہ دن میں چیئرمین کا انتخاب نہ کرسکی تو دوبارہ صرف وزیراعظم نام بھجوائےں گے۔ ان کا پہلا نام حتمی تصور ہوگا ۔ اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور کمیٹی کے رکن زاہد حامد نے کہا کہ حکومت نے قائمہ کمیٹی کی کارروائی کو بلڈوز کرتے ہوئے من پسند تجاویز منظور کی ہیں، پرانے احتساب بل پر دو سال کام کیا لیکن اتنی محنت کے بعد تیار کیا گیا بل حکومت نے اچانک واپس لے کر اپنی کرپشن چھپانے کیلئے ڈھونگ بل متعارف کرایا ہے، نئے احتساب بل میں ماضی کی کرپشن کو تحفظ دے دیا گیا ہے، سب کو معلوم ہے کہ یہ کس کے کہنے پر ہورہا ہے، احتساب کمشن کے ڈپٹی چیئرمین اور پراسکیوٹر کی تقرری پارلیمانی کمیٹی کرے گی۔ مسلم لیگ نواز کی حکومت آئی تو وہ احتساب کمشن کو زیادہ بااختیار بنانے کیلئے حقیقی بل متعارف کرائے گی اور موجودہ حکومت جو قانون بنانے جارہی ہے اس کو یکسر تبدیل کرے گی، کرپشن کے تحفظ کے لئے سب ملے وہئے ہیں۔ وفاقی وزیر سید خورشید شاہ نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کا ماضی میں بہت احتساب ہوچکا اب ہمیں انتقامی سیاست سے آگے بڑھنا ہوگا اسی لئے نئے احتساب بل کے نفاذ کی مدت اکتوبر 2002ءسے رکھی، احتساب کمشن کا چیئرمین ریٹائرڈ جج یا اعلیٰ عدلیہ کا جج بننے کا اہل شخص ہوگا، بیورو کریٹ کا لفظ بل سے خارج کردیا گیا، بل کی راہ میں مسلم لیگ (ن) روڑے اٹکا رہی ہے، نیا احتساب بل منظور ہوجانا چاہئے۔ اجلاس آج پھر ہوگا جس میں احتساب کمشن بل 2012ءکی مزید شقوں کا جائزہ لیا جائے گا۔ مسلم لیگ (ن)کے ارکان تحفظات کے باوجود شرکت کرینگے۔ نجی ٹی وی کے مطابق چیئرمین، ڈپٹی چیئرمین کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) کی تجویز مانی گئی ہے۔ ڈپٹی چیئرمین ہائیکورٹ کا جج بننے کا اہل شخص ہو گا۔ پراسیکیوٹر بھی ہائیکورٹ کا ریٹائرڈ جج یا جج بننے کا اہل شخص ہو گا۔ ان کی تقرری قائمہ کمیٹی کے ذریعے کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ حکومت نے احتساب بل قومی اسمبلی کے جاری اجلاس میں ہی منظور کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیر قانون فاروق نائیک نے کہا کہ بل سے متعلق قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف میں پیش رفت ہوئی ہے۔ امید ہے اسمبلی کے رواں اجلاس میں بل پیش کر دیا جائے گا۔ فوج اور اعلیٰ عدلیہ احتساب کے دائرہ میں نہیں آئیں گی۔ 2002ءسے پہلے تو کئی بار احتساب ہو چکا ہے۔
اب احتساب یکم اکتوبر 2002ءسے شروع کرنے پر اتفاق‘ قائمہ کمیٹی نے 10 شقیں منظور کر لیں
Oct 11, 2012