"JOURNEY OF HOPE"

"JOURNEY OF HOPE"

Oct 11, 2013

اثر چوہان

لندن کے ایک بہت بڑے ہوٹل میں The Community of London کی طرف سے 8اکتوبر کو، گورنر پنجاب چودھری محمد سرور کے اعزاز میں جو عشائیہ ترتیب دیا گیا تھا اس کا اہتمام "Businessmen's Eleven"یعنی لندن کے گیارہ سرکردہ پاکستانی نژاد برطانوی شہریوں نے کہا تھا۔ جناب اصغر چودھری اس الیون کے کپتان تھے اور جناب فیض رسول، سید قمر رضا، جناب شہزاد خان، خواجہ محمد یونس، سید محسن اختر، شیخ سربلند، جناب ناہید رندھاوا، جناب سرفراز خان، جناب طاہر چودھری اور اکرام خان، اس الیون کے دس ارکان۔ کپتان اصغر چودھری اور ان کی ٹیم کے سبھی ارکان نے، فرداً فرداً اپنی استقبالیہ تقاریر میں گورنر پنجاب کو یقین دلایا کہ ”اگر حکومت پاکستان تحفظ دے تو برطانیہ میں مقیم ”فرزندان پاکستان“ پاکستان میں سرمایہ کاری کر کے اپنے بھائی بندوں کے مسائل حل کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔“ تقریب کے Coordinators جناب محمد مظفر چودھری، محمد اسلم چودھری اور لندن میں چودھری محمد سرور کے معاون خصوصی جناب مشتاق لاشاری نے بتایا کہ ”تقریب کے میزبانوں کے علاوہ لندن کے کئی اور پاکستانی نژاد بزنس مین 15اگست کو گورنر پنجاب کی حیثیت سے چودھری محمد سرور کی حلف برداری کی تقریب میں موجود تھے۔ یہ یقین دہانی کرانے کے لئے کہ وہ سب کے سب اپنی خون پسینے کی کمائی“ مادر وطن کے قدموں میں نچھاور کرنے کے لئے تیار ہیں۔“
چودھری محمد سرور نے اپنی تقریر میں کہا کہ ”گلاسگو ایڈمبرا، مانچسٹر، برمنگھم اور شفیلڈ میں بھی میرے پاکستانی بھائیوں نے انفرادی اور اجتماعی طور پر یہی مسئلہ اٹھایا تھا اور میں نہ صرف پاکستانی نژاد برطانوی سرمایہ کاروں بلکہ یورپی ملکوں کے دوسرے سرمایہ کاروں کو بھی یقین دلاتا ہوں کہ وزیراعظم نواز شریف کی حکومت، ان کو اور ان کی سرمایہ کاری کو مکمل تحفظ دے گی۔ چودھری محمد سرور نے کہا کہ ”میں برطانیہ میں اپنا خاندان، دوست احباب، کاروبار اور برطانوی شہریت چھوڑ کر اس لئے پاکستان گیا کہ نہ صرف پنجاب بلکہ پاکستان میں اپنے بھائیوں، بزرگوں، بہنوں اور بچوں کی خدمت کر سکوں لیکن مجھے پاکستان جا کر احساس ہوا کہ مجھ پر کتنی ذمہ داری آن پڑی ہے۔ پاکستان کے عوام کے مسائل کے اصل ذمہ دار وہاں کے سرمایہ دار، جاگیر، سیاستدان اور بیورو کریٹس ہیں۔ اوورسیز پاکستانیوں کی جائیدادوں، پلاٹوں اور مکانوں پر قبضہ کرنے والی مافیا سب سے مضبوط ہے جو جعلی مختار ناموں کے ذریعے ان کی غیرموجودگی میں ان کے خون پسینے کی کمائی ہتھیا لیتے ہیں۔ میں وزیراعظم نواز شریف سے انشااللہ یہ بات منوا لوں گا کہ پاکستان میں اوورسیز پاکستانیوں کی شکایات دور کرنے کے لئے خصوصی پولیس سٹیشنز اور خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں اور مقدمات کا فیصلہ زیادہ سے زیادہ تین تاریخوں میں ہو جایا کرے۔“
تقریب میں نہ صرف لیبر پارٹی بلکہ برسراقتدار کنزرویٹو پارٹی کے ایم پیز اور لارڈز بھی موجود تھے۔ مقررین نے برطانیہ میں ”بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ“ کے لئے چودھری محمد سرور کی خدمات کی تعریف کی۔ لارڈ نذیر احمد نے چودھری صاحب کو برطانیہ اور پاکستان کے درمیان ”پل“ قرار دیا۔ لارڈ قربان حسین نے کہا کہ ”چودھری محمد سرور پنجاب کے پہلے گورنر ہیں جو برطانوی شہریت چھوڑ کر اہل پاکستان کی خدمت کے لئے وطن واپس چلے گئے۔“ چودھری محمد سرور نے اپنی تقریر میں کہا کہ ”میں ورکنگ کلاس سے تعلق رکھتا ہوں، روزگار کی تلاش میں برطانیہ آیا۔ مجھے ہارٹ اٹیک ہوا تو میں ہسپتال میں تھا۔ میں اپنے والد صاحب کے جنازے کو کندھا نہیں دے سکا جس کا مجھے بہت دکھ ہے۔ برطانیہ میں پاکستانی نژاد برطانوی شہری خاص طور پر بزنس کمیونٹی، خوشحالی کی زندگی بسر کر رہی ہے۔ پاکستان میں ہر روز بھوک اور بیماری کی وجہ سے ہزاروں لوگ مر رہے ہیں۔ آپ ان کے لئے سرمایہ کاری کریں اور رفاہی منصوبے بنائیں۔ وزیراعظم نواز شریف میرے قائد ہیں او روزیراعظم پنجاب میاں شہباز بھائی۔ انہوں نے مجھے اختیار دیا ہے کہ تعلیم کے فروغ کے لئے پورے پاکستان میں خدمات انجام دوں اور دوسرے شعبوں میںبھی میں نے برطانیہ کے سابق وزیراعظم اور اقوام متحدہ میں فروغ تعلیم کے انچارج گورڈن برا¶ن سے بات کی ہے وہ پاکستان میں فروغ تعلیم کے لئے نصف بلین پونڈ کی رقم مختص کرنے کے لئے تیار ہیں۔“
چودھری محمد سرور نے کہا کہ ”برطانیہ میں حکومت کسی بھی پارٹی کی ہو اس نے پاکستان کے عوام کے مسائل میں گہری دلچسپی لی ہے اور اس کا کریڈٹ برطانیہ میں مقیم ہر شعبے میں اہم کردار ادا کرنے والے پاکستانیوں کو جاتا ہے۔ ماہ رواں کے آخر میں یورپیئن پارلیمنٹ کی کمیٹی کا اجلاس ہو رہا ہے۔ میں نے یورپیئن پارلیمنٹ کے کئی ارکان اور عالمی اداروں کے کچھ سربراہوں سے بات کی ہے کہ اس کمیٹی کے اجلاس میں جی ایس پی پلس بل رائے شماری کے لئے پیش ہونے والا ہے جس سے پاکستان میں ایک سال کے اندر دس لاکھ افراد کو روزگار مل سکے گا اور یورپی منڈی میں پاکستان کی کاٹن اور گارمنٹس انڈسٹری کی تجارت 13بلین سے بڑھ کر 26ملین ہو جائے گی۔ دنیا کے کئی ملکوں نے ہمیں اپنی حمایت کا یقین دلایا ہے۔ لیکن میں ہر پاکستان نژاد برطانوی سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ جس شہر میں بھی رہتا ہو اپنے حلقے کے یورپئن پارلیمنٹ کے رکن سے ملاقات کر کے اسے پاکستان کی حمایت میں ووٹ ڈالنے کے لئے کہے۔“
میں نے گلاسگو کے EMIRATES ARENA میں 5/4ہزار افراد کے جلسہ عام میں بھی چودھری محمد سرور کی تقریر سنی تھی جس کے بارے میں میں نے لکھا تھا کہ وہ گورنر پنجاب کم اور برطانیہ میں پاکستان کے مستقل مندوب زیادہ لگ رہے تھے۔ مجھے جناب مشتاق لاشاری نے بتایا کہ ایڈمبرا، مانچسٹر برمنگھم اور شفیلڈ میں بھی چودھری محمد سرور پاکستانی نژاد برطانوی شہریوں کی وساطت سے عالمی برادری کے سامنے پورے پاکستان کا مقدمہ پیش کر رہے تھے۔ لندن کے عشائیہ میں بھی گورنر پنجاب نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی جنگ میں پاکستان کے ہوئے نقصانات کی تلافی کرے۔ پشاور کے گرجا گھر پر خود کش حملے میں عبادت میں مصروف عیسائیوں کے جاں بحق ہونے پر گورنر پنجاب نے کہا ”سانحہ پشاور سے پوری پاکستانی قوم کا سر شرم سے جھک گیا ہے۔“ پھر انہوں نے 11اگست 1947ءکو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی سے بانی پاکستان کے خطاب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ قائداعظم نے مملکت خداداد پاکستان میں اقلیتوں کو نہ صرف تحفظ کی ضمانت دی تھی بلکہ انہیں مسلمانوں کے برابر سیاسی، سماجی اور معاشی حقوق دینے کی یقین بھی کرائی تھی۔“ میں سوچ رہا تھا کہ ایک خاص مذہبی سوچ رکھنے والا ہتھیار بردار گروہ جس کا فتویٰ ہے کہ ”پشاور کے گرجا گھر پر خود کش حملہ شریعت کے عین مطابق تھا“ وہ پاکستان کو قائداعظم کا پاکستان کب بننے دیں گے؟
چودھری محمد سرور نے کہا کہ ”برطانیہ کی سیاست اور جمہوری نظام سے میں نے جو کچھ سیکھا اسے پاکستان کی بہتری کے لئے استعمال کروں گا۔“ کنزرویٹو پارٹی کے ایم پی، لیبر پارٹی کے ایم پی Meath Vazz اور بیرسٹر یاسمین قریشی نے پاکستان اور برطانیہ کے درمیان ”پل“ بننے پر چودھری محمد سرور کو پاکستان کی بہبود کے لئے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔ دارالعلوام میں گلاسگو سے منتخب رکن چودھری محمد سرور کے سیاسی جانشین انس سرور چودھری اپنے والد سے اچھی انگریزی بولتے ہیں لیکن انہیں اپنا IDEAL سمجھتے ہیں۔ انس سرور چودھری دارالعلوام میں لیبر پارٹی کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر ہیں۔ انہوں نے ہال میں پہلے سے نصب بہت بڑی سکرین پر چودھری محمد سرور کی 1976ءسے 2013ءتک کی جدوجہد کی داستان دکھائی۔ خاندان کے افراد کی تصویروں اور چودھری محمد سرور کی تقریروں کے ساتھ جس کا عنوان تھا "Journey of Hope"۔ یعنی امید کا سفر۔ میرے ہم جلیس اور 50سال سے دوست سید علی جعفر زیدی نے فلم پر تبصرہ کرتے ہوئے پنجاب کے صوفی شاعر حضرت میاں محمد کا یہ دعائیہ شعر پڑھا
”رحمت دا مینہ پا خدایا باغ سکا کر ہریا
بوٹا آس امید دا میری کردے میوے بھریا“
پاکستان کے عوام بھی گذشتہ 66سال سے ”امید کا سفر“جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بنی اسرائیل کو تو 40سال بعد دشت نوردی سے نجات مل گئی تھی۔ پاکستانی قوم کو کب ملے گی؟

مزیدخبریں