اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ نے تحریری فیصلہ میں لاکھڑا پاور جنریشن کمپنی کی لیزکا معاہدہ غیر شفاف اور غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اسے کالعدم کر دیا ہے۔ حکومت کو ذمہ داروں کا تعین کر کے ان کے خلاف دیوانی اور فوجداری کارروائی کرنے کی ہدایت کی ہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس شیخ عظمت سعید پر مشتمل تین رکنی بنچ نے سماعت کی تھی۔ فاضل عدالت نے 26 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا ہے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے تحریر کیا ہے جسٹس جواد ایس خواجہ نے جسٹس شیخ عظمت سعید کے اخذ کئے گئے نتائج سے اتفاق کرتے ہوئے اضافی نوٹ تحریر کیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ریاستی اداروں کو ان اداروں کے انتظامات سنبھالنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے لیکن اس کا یہ ہر گز مطلب نہیں وہ اپنی من مانیاں کریں۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ واپڈا کی جانب سے بطور عوامی محکمہ قومی اثاثہ جات ¾ فنڈز اور جائیداد سے متعلق اقدامات غیر شفاف اور تعصب پر مبنی تھے۔روم (ROMM) آپریٹر کی خدمات حاصل کرنے کے لئے 26 جولائی 2003ءکو شائع کردہ اشتہار 17 مارچ 2004ءکو منسوخ کر دیا گیا‘ اس لئے کارروائی کی منسوخی کے بعد ایسوسی ایٹڈ گروپ کے ساتھ کئے جانے والے متنازعہ معاہدہ کو آزادانہ طریقے سے سرانجام دیا جانا چاہئے تھا لیکن اس کے لئے کوئی اشتہار نہیں دیا گیا۔ یہی جواز اس معاہدے کو کالعدم قرار دینے کے لئے کافی ہے۔ فیصلے کے مطابق ایسوسی ایٹڈ گروپ کو نہ صرف یکطرفہ طور پر پاور پلانٹ تک رسائی دی گئی بلکہ اس گروپ کو واپڈا سمیت ایوان صدر میں بھی فیصلے کرنے والے مجاز حکام تک رسائی حاصل تھی ¾ جو ناجائز فائدہ پہنچانے کی کھلی مثال ہے۔ اشتہار مشتہر کئے بغیر صرف ان فرموں سے رابطہ کیا گیا جنہوں نے معاہدے میں اپنی دلچسپی ظاہر کی تھی۔ معاہدہ بے قاعدگیوں سے بھرا پڑا ہے ۔ صرف ایسوسی ایٹڈ گروپ کو نوازنے کے لئے شفافیت کے تمام اصولوں کو بالائے طاق رکھا گیا ہے اس لئے قانون کی نظر میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے اضافی نوٹ میں ملک کے آئینی طرز حکومت پر زور دیتے ہوئے اور اس کی معاہداتی طرز کو اجاگر کرتے ہوئے قرار دےا ہے کہ پاکستان مےں آئےنی جمہورےت ہے جو معاہداتی نظرےہ پر استوار ہے جس کے مطابق حکومت کو اختیارات عوام کی طرف سے آئین میں مروجہ شرائط وضوابط کے مطابق تفویض کردہ ہوتے ہیں۔اس معاہداتی ذمہ داری کی رو سے ریاستی ادارں پر لازم ہے کہ وہ پاکستانی عوام کے مفاد میں عمل کریں۔ امین کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ ورہ اس امانت سے فائدہ اٹھانے والوں کے مفاد کو افضل جانے۔ انہوں نے یہ قیاس کیا کہ امانتی ذمہ داریاں جن کا تعین کمپنی قوانین میں کیا جاتا ہے‘ ان سے مراد کمپنی کے ڈائریکٹرز کو حاصل مراعات کا حصص داران کے مفاد سے متوازن کرنا ہے۔ لاکھڑا پاور جنریشن کمپنی کو پٹے پر دینے کے عمل میں واپڈا نے وفاداری کے تمام اعلیٰ معیارات ¾ احتیاطوں ¾ جن کی ایک امین سے توقع کی جا سکتی ہے ¾ کو خاطر میں نہیں لایا۔ بجائے اس کے کہ وہ پاکستانی عوام کے مفاد میں عمل کرتا ¾ اس نے خاص کمپنی کے مفادات کا خیال رکھا۔ عوامی مفاد کو اسی صورت مےں افضل رکھا جا سکتا تھا جب ROMM کی درخواستوں کے لئے مطلوبہ استعداد و شرائط کا اطلاق مساوےانہ طریقے سے کیا جاتا اور اس کے لئے باقاعدہ اشتہار دیا جاتا۔ اضافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ من پسند طریقے سے ریاست کی طرف سے عائد کردہ ذمہ داریوں سے انحراف ملک مےں قانون کی حکمرانی کو برباد کرنے کے مترادف ہے۔ یہ نظریہ کہ عدالت کے فیصلے صرف حکومتی اقدامات کے تابع ہوں اور فیصلہ سازی کے جائز طریقہ کار کو نظر انداز کیا جائے ¾ نظریہ قانون کی حکمرانی کے برعکس ہے۔جسٹس خواجہ نے اس نظریئے کو امانتی ذمہ داریوں سے مفاداتی انحراف قرار دیا اور سختی کے ساتھ اسے روک دیا ہے۔ واضح رہے کہ واپڈا نے 11 ستمبر 2006ءکو ایسوسی ایٹڈ گروپ کے ساتھ جینکو IV‘ لاکھڑا پاور جنریشن کمپنی لمیٹڈ کا 20 سالہ لیز کا معاہدہ کیا جسے حبیب اللہ انرجی لمیٹڈ اور زونل لیبر یونین لاکھڑا نے سندھ ہائیکورٹ میں الگ الگ چیلنج کیا‘ تاہم سندھ ہائیکورٹ نے دونوں درخواستیں خارج کر دیں جس کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی گئی۔ثنا نیوز کے مطابق جسٹس شیخ عظمت سعید نے فیصلہ تحریر کیا ہے۔ اس فیصلہ میں جسٹس جواد ایس خواجہ نے خصوصی نوٹ میں کہا کہ مجھے 21 اگست 2013ءکے مختصر حکم نامے کی تفصیل میں فاضل جسٹس عظمت سعید کے تحریر کردہ فیصلے میں بیان شدہ استدلال پر نظر ڈالنے کا موقع ملا۔ ان کے اخذ شدہ نتائج سے عمومی اتفاق کرتے ہوئے میں یہ تائیدی فیصلہ مذکورہ حکم نامے کے لیے مزید دلائل پیش کرنے کے لیے لکھ رہا ہوں۔ جسٹس جواد کا کہنا ہے کہ ابتدا ہی میں عوامی وسرکاری اداروں کی حیثیت کے بارے میں بنیادی قاعدے کی وضاحت ضروری ہے جو مدعاعلیہان کے فاضل وکلا کی نظروں سے اوجھل رہا ہے۔ لاکھڑا کے بجلی گھر کی طرح کے سرکاری ادارے عوامی اثاثے ہیں جو درحقےقت پاکستان کے عوام کی ہی ملکیت ہیں۔ گو ریاست کو ان اداروں کے انتظامی امور چلانے کے لیے اختیار دیا گیا ہے ،تاہم یہ منتظم ریاستی ایجنسیاں اس بنا پر ان اداروں کے اثاثہ جات کی مالک نہیں بن جاتیں۔ سرکاری ادارے اور ان اداروں کے افسران جو انتظام پر مامور ہےں اپنے عمل مےں اور انتظامی فےصلوں مےں مطلق العنان ہیں اور نہ ہی ان کی صوابدےد بے لگام ہے۔ وہ عوام کے امےن ہےں۔ عوامی اداروں کا انتظام چلانے میں ریاستی ایجنسیوں کی صحیح حیثیت متعین کرنے کے لیے اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ ہمارے دستوری نظام مےں حکومت کے لئے کےا حےثےت متعےن کی گئی ہے۔ دستوری جمہوریت کا بنیادی اصول یہ ہے کہ حکومت آئےن کی صورت معاہدے کے نتیجے میں وجود میں آتی ہے جس کے ذریعے عوام دستور کے مطابق حکومت کو اختیارات سونپ دےتے ہےں۔ دستور کے ابتدائےے میں ،دےگر امور کے ساتھ ےہ بھی قرار دیا گیا ہے کہ ”یہ عوام کا ارادہ ہے کہ وہ ایک نظام تشکیل دیں۔“ ان اداروں کا ، جودراصل عوام کی ملکیت ہیں ، انتظام چلانے والی ریاستی ایجنسیاں اس نظام کا حصہ ہیں جسے عوام نے تشکیل دیا ہے اور اس بنا پر وہ صرف تفوےض کردہ اختیار رکھتی ہیں ۔ رےاستی اےجنسےاں سرکاری اداروں کی مالک ےامختار کل نہےں بلکہ ان کی نگہبان محافظ و امےن ہےں جو اِن عوامی ملکیت کے اثاثہ جات کے حقےقی مالک اور فائدہ اٹھانے والے ہیں۔ سرکاری ادارے عوام کی ملکیت ہیں۔ریاست کو ان اداروں کے انتظامی امور چلانے کے لیے اختیار دیا گیا ہے جس سے منتظم ریاستی ایجنسیاں ان اداروں کے اثاثہ جات کی مالک نہیں بن جاتیں سرکاری ادارے اور ان اداروں کے افسر جو انتظام پر مامور ہےں اپنے عمل مےں اور انتظامی فےصلوں مےں مطلق العنان ہےں اور نہ ہی ان کی صوابدےد بے لگام ہے۔ وہ عوام کے امےن ہےں۔ اسلامی قانون نے بھی واضح طور پر یہی قرار دیا ہے کہ حکومت کا اختیار ایک امانت ہے حکمران اور حکومتی ادارے قوم کے نائب اور وکیل کے طور پر اختیارات کا استعمال کرتے ہےں ”مصلحت کا راستہ “اور ”ریاستی ضرورت“کے غیر معروضی نظرےات مردہ اور مدفون ہیں۔ ”یہ خیال قانون کی حکمرانی کے عےن تصور پر ہی براہ راست حملہ ہے۔ آئی این پی کے مطابق ریاستی اداروں کو ان اداروں کے انتظامات سنبھالنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے جس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ اپنی من مانیاں کریں۔ پاکستان میں جمہوریت ہے۔ حکومت کو عوام نے جمہوری حق دیا ہے۔ واپڈا نے عوام کے مفاد میں قانونی کوتاہی برتی جو قانون کو برباد کرنے کے مترادف ہے۔ اس سے قبل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ لاکھڑا پاور پلانٹ کی سماعت مکمل کرتے ہوئے لیز کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے مختصر فیصلہ جاری کیا تھا۔