”ہنگامہ ہے کیوں برپا“

”ہنگامہ ہے کیوں برپا“

ہم چھ دہائیاں نشیب و فراز سے گذرتے ہوئے 2007ءمیں NROکی شہنائیوں کی گونج میں جمہوریت کی بارات لانے میں کامیاب ہو گئے محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد چند ہفتوں کیلئے انتخابات ملتوی کرنے پڑے مگر اس پورے عمل سے گزرنے کے بعد جو دولہا ملا وہ کچھ زیادہ ہی جانا پہچانا تھا بقول کسے وہ "The Most Legitimate Hard Luck of Pakistan"© ۔ وہ حکومتی پارٹی کے سر براہ کے طور پر سب سے زیادہ موثر مگر کم سے کم متحرک رہے۔ وہ فقط جمہوریت بچانے آئے تھے جس میں انہیں حزب ا ختلاف کی بھی مکمل حمایت حاصل تھی سو وہ بچا کر چلے گئے ۔ عوام ‘ معاشرہ‘ ملکی وقار‘ معیشت اور ادارے بچانا نہ انکے منشور کا حصہ تھااور نہ ہی انہوں نے اس سمت میںکوئی کاوش کی۔ خدا خدا کر کے انکے پانچ سال ختم ہوئے اور عوام نے حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی مسلم لیگ (ن) کو بڑی امیدوں اور بھاری مینڈیت کیساتھ حکمرانی کیلئے منتخب کر لیا۔ زرداری صاحب کو شایانِ شان طریقے سے الوداع کہا گیا اور انہوں نے بھی ن لیگ کوآئندہ پانچ سال پورے کروانے کے عزم کا برملا اظہار کر دیا۔ حکومتیں سازشوں سے گرانا کوئی اچھی بات نہیں ہوتی مگر اپوزیشن کا معدوم ہو جانا اس سے بھی برا ہوتا ہے الاّ یہ کہ حکومتی کارکردگی سوچوں سے بھی بہتر ہو۔
ن لیگ کی حکومت آتے ہی سخت تنقید کا شکار ہو گئی ہے۔ تنقید سے مایوسی پھیل رہی ہے اور مایوسی سے حکومتی گراف تیزی سے گر رہا ہے۔ بغور جائزہ لیا جائے تو اسکی وجوہات ہر معاملے پر بے نتیجہ ہنگامہ خیزی اور معاملات نمٹانے میں تساہل ہے۔ سیاسی مفکرّین کے نزدیک عوامی سوالات اور جذبات کو جلد ازجلدسیراب کرنا کسی بھی لیڈر کیلئے سب سے پہلا اور ضروری کام ہوتا ہے جبکہ ہمارے ہاں اسے نظر انداز کیا جارہا ہے۔ چند ایک معاملات کو سٹڈی کرتے ہیں:۔
۱۔سب سے پہلے بلکہ حلف اٹھانے سے بھی پہلے بھارت کو ٹوٹ کر چاہنے کا اظہار کیا گیا۔ اس پر بحث تو خوب چھڑی مگر پذیرائی اِدھر سے تھی نہ اُدھر سے۔ لہذا معاملہ قیافہ آرائی کیلئے رہ گیا۔   
۲۔بجلی کے مسئلے کے حل کیلئے دن رات میٹنگیں ہوئیں جس سے بلبلاتے عوام کی امیدیں اور بڑھ گئیں۔ الفاظ کے گورکھ دھندوں کا بھی خوب پر چار ہوا۔ شائد کبھی کچھ فائدہ بھی ہوجائے مگر فی الوقت معاملہ ٹھنڈا اور عوام پر سوُجے ہوئے ٹیرف کا جلتا بلتا بم گرا دیا گیا ۔ پھر اسکے اوپر قیمتی تیل اسکے علاوہ رہا۔
۳۔معیشت سنبھالنے پر بہت بحث و تمحیص ہوئی مگر اسکے بعد ڈالر کی اڑان اور عوام کیلئے زندگی ایک بحران۔ فقط کڑوی گولیاں نگلنے کا واحد حل تجویز کیا گیا جس سے فرسٹریشن مزید بڑھی۔بہت سارے میگا پراجیکٹس کی نوید سنائی گئی مگر شائد ہی کوئی اس حکومت کے پانچ سال میں بار آور ہو سکے، بعد کا کسے پتا۔
۴۔طالبان سے مذاکرات پر APC بلائی گئی جس کے اعلامیے میں کوئی روڈ میپ وغیرہ نہ تھا۔ نتیجتاً اس مسئلے پر سوسائٹی کے اندر ہی اندر خاموشی سے مختلف الخیال گروہوں نے جنم لیا اور قوم پہلے سے زیادہ کنفیوژڈ کھڑی ہے۔
۵۔آج ہمیں عالمی سطح پر بہت سے امور نمٹانے ہیں جن کے لئے بین الاقوامی لابی چاہیے ہوتی ہے جبکہ ان حالات میں بھی ہمارے پاس نہ فل ٹائم وزیر خارجہ ہیں اور نہ کئی اہم ملکوں میں سفیر تعنیات ہیں۔ اس معاملے کو لٹکائے رکھنے سے بھی منفی تاثر رکھنے والی افواہیں اور پروپیگنڈہ پھیل رہا ہے۔
۶۔پچھلے دو ہفتوں سے میڈیا سینئر جرنیلوں کی سنیارٹی ‘ اوصاف اور اہم عہدوں پر تعنیاتی کے لئے موزونیت پر بحث کر رہا ہے حالانکہ یہ تعنیاتی وزیر اعظم اور صدر کے آئینی اختیارات کے تحت خاموشی سے عمل میں آجاتی ہیں۔ ہمارے سوا کسی ملک میں بھی اس پر پروگرام نہیں چلائے جاتے۔ دو دن پہلے اس گھسیٹا گھسیٹی سے نکلنے کیلئے جنرل کیانی نے ISPR کے ذریعے اپنی ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا اور پھروزیر اعظم صاحب نے بھی فرما دیا کہ وہ آرمی چیف اور چیئر مین JCSC کی تعنیاتی اکھٹی کریں گے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ وزیر اعظم صاحب اپنی پالیسی بحث چھڑنے سے پہلے ہی صادر فرما دیتے۔ بحث اس قدر روانی پکڑ چکی ہے کہ تجزیہ کار دائیں بائیں سے نکل کر اب بھی ذوق زباں کو تسکین دیتے رہیں گے۔
۷۔الیکشن 2013 نے پھر سے انگڑائی لی اور NA-256 میں تقریباً 77 ہزار ووٹ ناقابل شناخت نکل آئے۔ ان میں سے 11343 ووٹ تو ان شناختی کارڈ پر بنے ہوئے ہیں جو کبھی نادرا سے جاری ہی نہیں ہوئے اور 57642 ووٹوں پر نشان انگوٹھا نادرا کے ریکارڈ سے نہیں ملتا۔ دودنوں سے ہر چینل پر دھواں دھار بحث جاری ہے جس میں جیتنے والے امیدوار کی پارٹی MQM اور الیکشن اہلکاروں پر ایک ہی طرح کی بمباری جاری ہے۔حالانکہ اس طرح کے کیسز کو ڈیل کرنے کا قانون میں طریقہ موجود ہے اوردرست ہو بھی جائیگا۔ الیکشن کو مکمل طور پر مشکوک ثابت کرنے کی کوشش نہیں کر نا چاہیے۔ کوئی دانشور یا تجزیہ کار بھی مستقبل کے متعلق سوچتا سنائی نہیں دیا جس میں نادرا کے سسٹم کو چیک اور اپ ڈیٹ کرنے کے علاوہ ان تمام شناختی کارڈوں کے نمبروں کے ذریعے دوسرے محکموں کواپنے معاملات میں تطہیر کر لینی چاہیے۔ ہو سکتا ہے صرف اس حلقے سے ہی ان جعلی کارڈوں پر 20 ہزار پاسپورٹ بن چکے ہوں‘10ہزار اسلحہ لائسنس بنے ہوں‘ 30 ہزار موبائل سمیں کرائم میں استعمال ہو رہی ہوں ‘ 5 ہزار جعلی اکاﺅنٹس کھلے ہوںاور سینکڑوں ایکڑ کی فرد ملکیت کے لئے قبضہ گروپوں نے استعمال کئے ہوں وغیرہ وغیرہ۔
حقیقت یہ ہے کہ لوگ وطنِ عزیز میں ہر روز جس طرح منفرد نوعیت کا شور و غوغا اٹھتا ہے وہ ہمارے لئے عالمی سطح پر شرمندگی اور سوسائٹی کے اندر توڑ پھوڑ کا سبب بن رہا ہے جس سے اہل وطن نکلنا چاہتے ہیں۔ لہذا امیدوں کے ساتھ لائی گئی حکومت سے لوگ ایکشن مانگتے ہیں مزید وعدے نہیں۔ حکومت کے پاس بغیر کسی چیلنجر کے‘ ہیوی مینڈیٹ ہے لہذا بے جھجک فیصلے آنے چاہئیں قومی مفاد کا مطلب تاخیر ہر گز نہیں ہوتا بلکہ عوامی اضطراب شروع ہونے سے پہلے ہی انہیں منزل کی راہ دکھانا ہوتا ہے۔ یہ جو ہر طرف ہنگامہ برپا ہے وہ بلا جواز نہیں۔
طعنہ نشہ نہ دو سب کو کہ کچھ سوختہ جاں
شدّت تشنہ لبی سے بھی بہک جاتے ہیں

کرنل (ر) زیڈ ۔آئی۔فرخ....نئے راستے

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...