مذاکرات ناکام ہوئے تو ایسی جنگ ہو گی جو ابھی تک نہیں ہوئی، میدان پنجاب بنے گا : بی بی سی !
پانچ دریاﺅں کی سرزمین جہاں پیار چراغ جلاتا ہے، جہاں پربت جھوم کے گاتا ہے، جس نے ہمیشہ آنے والوں کو خوش آمدید کہا اپنے دامن میں انہیں پناہ دی، جس کے میدان لہلہاتے سرسبز ہیں جس کے دریاﺅں کی روانی میں مستی جھلکتی ہے اسے ہمیشہ اسکی خوشحالی کی وجہ سے لوٹ مار اور درندگی کا نشانہ بنایا گیا مگر آفرین ہے اس دھرتی پر جو زخم خوردہ ہو کر بھی امن و محبت کے گیت گاتی ہے۔ ہیر رانجھا، سیف الملوک، سوہنی مہینوال کے قصے سُناتی ہے۔
قیام پاکستان کے موقع پر اس دھرتی کی ایک بیٹی نے یہاں ہوئی قتل و غارت گری پر بین ڈالتے ہوئے کیا خوب کہا تھا ....
اٹھ درد منداں دیا دردیا تے تک اپنا پنجاب
اج بیلے لاشاں وچھیاں تے لہو توں بھری چناب
اج سارے کیدو بن گئے حسن و عشق دے چور
اج کیتھوں لائیے لب کے وارث شاہ اک ہور
تو جناب آج پنجاب میں کسی جنگ کی نوید سُنا رہے ہیں تو یہ بات جان لیں کہ پنجاب نے پہلے بھی سکندر اعظم سے 1947ءتک ہر جنگجو نے ماتھا ٹکرایا اور لہولہان ہُوا، آج اگر کوئی دہشت گرد پھر پنجاب کو میدان کارزار بنانا چاہتا ہے تو وہ بھی اپنا شوق پورا کر لے۔
پنجاب پاکستان کی آن ہے شان ہے، 65ءاور 71ءکی جنگوں میں بھی یہ سربکف رہا۔ آج بھی جو ملک دشمن عناصر پاکستان میں قتل و غارت گری کا چیلنج دے رہے ہیں وہ جان لیں کہ 18 کروڑ پاکستانیوں کے دل اپنے ملک کی محبت میں دھڑکتے ہیں اور وہ متحد ہو کر غارت گری کرنے والوں کو انہی کی زبان میں جواب دیں گے۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
حسن روحانی کا اوباما سے رابطہ غلطی تھی، اخبار کی خبر پڑھ کر ایرانی وزیر خارجہ بیمار ہو گئے!
ہمارے عوامی نمائندوں کو بھی چاہئے کہ وہ کوئی بھی کام کرنے سے پہلے اس کا ردعمل ضرور اپنے ذہن میں رکھیں ورنہ ان کا حال بھی ایرانی وزیر خارجہ کی طرح ہو سکتا ہے جو عوامی ردعمل کی خبروں کی تاب نہ لا کر صاحبِ فراش ہو گئے مگر آفرین ہے ہمارے رہنماﺅں اور لیڈروں پر کہ عوام جو چاہے کہیں میڈیا جو چاہے بولے لکھے ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی، لگتا ہے انہوں نے کانوں کو بند کر رکھا ہے یا وہ ثقل سماعت کے مریض ہیں۔ پوری قوم نے دیکھا بھی ہے۔ یہ 70 یا 80 سال کے رہنما جب بھی حکومت میں ہوتے ہیں تو چاق و چوبند نظر آتے ہیں مگر جوں ہی حکومت سے نکلتے ہیں‘ انکے ہاتھوں پر رعشہ طاری ہو جاتا ہے، گردن پر جس میں سریا ہوتا تھا‘کالر لگ جاتا ہے بعض تو وہیل چیئر استعمال کرنے لگتے ہیں۔ چہرے پر تکبر کی پھٹکار کی جگہ ازلی یاسیت ، معصومیت بن کر آ جاتی ہے۔ بقول شاعر ....
جب بھی چاہیں اک نئی صورت بنا لیتے ہیں لوگ
ایک چہرے پر کئی چہرے سجا لیتے ہیں لوگ
کاش ہمارے رہنماﺅں کو بھی ہوش آئے اور وہ عوام کے ردعمل کے خوف سے بیمار نہ سہی درست ہی ہو جائیں اور اپنی اصلاح کر لیں۔ عوام کے دکھ درد کا احساس کریں انہیں صحت، تعلیم، خوراک جیسی بنیادی سہولتوں کی فراہمی ارزاں اور یقینی بنائیں تو پھر انہیں حکومت کے بعد بھی عزت احترام اور وقار ملے گا مگر جناب ہمارے ہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہے۔ نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سُنتا ہے یہاں تو صرف خوشامدیوں کی دال گلتی ہے۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
آزاد کشمیر میں فنڈز کی بندش پر عملدرآمد شروع ہو گیا، چلو اچھا ہوا کہ آزاد کشمیر میں قومی وسائل کی لوٹ مار اور بندر بانٹ کے آگے وفاقی وزیر امور کشمیر نے بالآخر بند باندھ ہی لیا۔
قیام پاکستان سے آج تک آزاد کشمیر کے مختصر رقبہ کی حکومت اور اس کے وزراءکو ترقیاتی کاموں کیلئے اربوں نہیں کھربوں روپے فراہم کئے گئے مگر ذرا کوہالہ پار کر کے باغ، مظفر آباد، راولا کوٹ، نیلم ویلی، شاردا، اٹھمقام، اوڑی یا کسی بھی علاقے کی طرف سفر کریں تو 67 سالہ ترقیاتی سفر کا اصل چہرے سامنے آ جاتا ہے۔
آج بھی لاکھوں شہری تعلیم، صحت، بجلی، پانی کی جدید سہولتوں سے محروم ہیں۔ سڑکیں کھنڈرات میں بدل چکی ہیں۔ آزاد کشمیر کی اصل سیاست کچھ یوں ہو چکی ہے ....
عجب حرص دولت کا یہ رقص و رم ہے
کہ جیسے ضرورت بہت‘ وقت کم ہے
اب وزارت امور کشمیر ذرا ہمت دکھائے سابقہ ادوار کے بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں کا بھی آڈٹ کرائے تو کرپشن کی اس گنگا میں کئی پاکباز، صوفی منش انسانوں کے ساتھ ساتھ آزادی کے متوالوں، حریت کے دیوانوں، عوام کے پاسبانوں اور تبدیلی کے پروانوں کی نعشیں بھی تیرتی ہوئی ملیں گی جن کی بدولت آج یہ خطہ¿ جنت نظیر بے روزگاری، بدحالی اور منشیات کی دلدل میں ڈوبا ہُوا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کشمیریوں کا لہو پی رہی ہیں۔ یہاں آزاد کشمیر میں خود ہمارے سیاستدان، بیورو کریٹ اور جرائم پیشہ مافیا یہی کام انجام دے رہا ہے۔ دیکھتے ہیں اب ان کو نکیل کون ڈالتا ہے۔