”یوتھ پیکج“ کے بعد دورہ وزیرستان!

چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے عیدالفطر دہشت گردوں کے خلاف اگلے مورچوں پر آپریشن ”ضرب العضب“ میں برسر پیکار پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کے ساتھ منائی تھی۔ وہ چاند رات کو ہی شمالی وزیرستان پہنچ گئے تھے اور میران شاہ کے فوجی کیمپ میں اُن کے ساتھ تھے۔ پاک فوج کی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوا تھا کہ اُن کے سربراہ نے اپنے خاندان کے افراد کے بجائے اپنے زیر کمان پیاروں کے ساتھ عید منائی۔ عید الاضحی بھی جنرل راحیل شریف نے شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشن ”ضرب العضب“ میں شریک فوجی جوانوں اور شمالی وزیرستان کے آئی ڈی پیز کے ساتھ عید منائی۔
جنرل راحیل شریف نے آئی ڈی پیز کے کیمپ میں فاٹا کے عوام کی حب الوطنی کی تعریف کی اور اُن کی قربانیوں کو سراہا۔ اِس موقع پر جنرل راحیل شریف نے ”فاٹا یوتھ پیکج“ کا اعلان کیا جس کے مطابق اگلے 6 ماہ میں فاٹا کے ایک ہزار نوجوانوں کو فوج میں بھرتی کیا جائے گا اور آئندہ 5 سال میں 14 ہزار نوجوانوں کو۔ فاٹا کے ڈیڑھ ہزار بچوں کو پاک فوج کے سکولوں اور کالجوں میں مفت تعلیمی سہولتیں فراہم کی جائیں گی اور سالانہ بنیادوں پر فوجی کیڈٹ کالجوں میں نوجوانوں کے لئے نشستیں مخصوص کی جائیں گی۔
فاٹا کے نوجوان کے لئے یہ جو پُرکشش مراعات کی پیشکش کی گئی ہے یہ بھی پہلی مرتبہ ہوا ہے۔ فاٹا کے نوجوان بھی پاکستان کے دوسرے علاقوں کے نوجوانوں کے برابر پاکستان کے وسائل سے زندگی کی تمام سہولتیں حاصل کرنے کے حقدار ہیں لیکن مختلف حکومتوں اور فاٹا کے منتخب ارکان قومی اسمبلی اور سینٹرز نے بھی توجہ نہیں دی۔ انتخابات میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دی جاتی، بیروزگاری اور غربت کا شکار فاٹا کے بہت سے نوجوانوں کو اپنی مرضی کی شریعت نافذ کرنے والے دہشت گردوں نے پھانس لیا۔ پھر جو کچھ ہوا سب پر عیاں ہے۔ سابق صدر آصف علی زرداری کا ”سنہری دور“ تو خیر سے مفاہمت کا دور تھا لیکن وزیراعظم نواز شریف کی مسلم لیگی حکومت نے دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن کا فیصلہ کرنے میں بہت دیر لگا دی تھی۔
عید کے 3 دن بعد 9 اکتوبر کو وزیراعظم نواز شریف نے شمالی وزیرستان کے صدر مقام میران شاہ کا دورہ کر کے نہ صرف دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ”ضرب العضب“ کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے وزیرستان کے پاکستانیوں بلکہ قومی اور بین الاقوامی میڈیا کو بھی خوشگوار حیرت میں مبتلا کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان کی 40 سالہ تاریخ میں میاں نواز شریف پہلے وزیراعظم ہیں جو شمالی وزیرستان کے دورے پر تشریف لے گئے۔ جنرل راحیل شریف نے وزیراعظم کا استقبال کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ”دہشت گردوں کے خلاف لڑنے والے پاک فوج کے افسران اور جوان ہمارے ہیرو ہیں۔ یہ پاکستان کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے قربانیاں دے رہے ہیں۔“
وزیراعظم نے وعدہ کیا کہ ”اپنے گھروں سے بے گھر ہونے والے انشا¿اللہ عزت کے ساتھ اپنے گھروں کو واپس لوٹیں گے۔ جن گھروں کو مسمار کر دیا گیا ہے انہیں نئے سرے سے تعمیر کیا جائے گا۔ نئی سڑکیں اور عمارتیں تعمیر ہوں گی، سارے علاقے کو ترقی یافتہ بنا دیا جائے گا اور نوجوانوں کو ہُنر مندی سکھائی جائے گی تاکہ وہ اپنی روزی باعزت طور پر کما سکیں۔“ وزیراعظم نے جنرل راحیل شریف کی طرف سے اعلان کردہ ”فاٹا یوتھ پیکج“ کا تذکرہ نہیں کِیا لیکن شمالی وزیرستان کی تعمیر نو کے لئے جو اعلانات کئے اطمینان بخش ہیں۔ بشرطِ کہ اُن پر عملدرآمد میں پُھرتی دکھائی جائے اور تمام منصوبے کرپشن سے پاک ہوں۔ 10 لاکھ سے زیادہ بے گھروں کی آباد کاری کا کام جنگی بنیادوں پر کرنا ہو گا، سیاسی مفادات کو نظر انداز کر کے۔
اصولی طور پر خیبر پی کے میں جناب عمران خان کی حکومت کو بھی آئی ڈی پیز کی آبادکاری میں وفاقی حکومت اور پاک فوج سے تعاون کرنا چاہئے تھا۔ عمران خان اگر چاہتے تو خیبر پی کے عوام کی خدمت کر کے اُسے پاکستان کا ایک مثالی صوبہ بنا سکتے تھے۔ اُس کے بعد پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے عوام کے دلوں کو بھی جیت سکتے تھے لیکن وہ تو نمازِ عید میں اپنے پیش امام علامہ طاہر القادری کے نقش قدم پر چل پڑے ہیں۔ قومی اور پنجاب اسمبلی کی نشستوں سے پاکستان تحریک انصاف کے ارکان مستعفی ہو گئے ہیں اور نہیں بھی ہوئے
کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے
شمالی وزیرستان میں پاک فوج کے غازیوں نے تحریک طالبان کے مرکزی ٹھکانے پر قبضہ کر لیا۔ 700 کمروں اور زیر زمین بنکرز سے بھاری مقدار میں جدید ترین اسلحہ برآمد ہوا۔ یہ تحریک طالبان کا کمانڈ اینڈ کٹنرول سنٹر تھا۔ وزیراعظم کے ساتھ وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان بھی پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کو دیکھنے اُن کے ساتھ گئے تھے۔ یہ اس لئے ضروری تھا کہ چودھری صاحب نے قومی اسمبلی کے ایوان میں دہشت گرد طالبان کو ”محبِ وطن طالبان“ کا خطاب دیا تھا اور طالبان کا سرغنہ حکیم اللہ محسود ڈرون حملے سے ہلاک ہوا تو چودھری صاحب کا بس نہیں چلا ورنہ وہ ”اپنے محسود“ کا قومی سطح پر سوگ منانے کا انتظام کرتے۔
طالبان اور دہشت گردوں کے دوسرے گروپوں کے خلاف آپریشن کے معاملے میں شروع شروع میں وزیراعظم نواز شریف کی حکومت تذبذب کا شکار تھی۔ طالبان کے باپ کہلانے والے مولانا سمیع الحق کہا کرتے تھے کہ ”طالبان حکومتِ پاکستان سے مذاکرات صرف ایک ہی نکتے پر کریں گے کہ پاکستان امریکہ کے دباﺅ سے کیسے نکلے؟“ حکومت پاکستان کے ملازم (جمعیت علمائے اسلام ف کے لیڈر) ، اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی تڑی لگایا کرتے تھے کہ ”پاکستان کی خیریت چاہتے ہو تو طالبان سے مذاکرات کرو!“ 9 ستمبر 2013ءکو اسلام آباد میں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں طالبان کو ”ریاست پاکستان کے ’سٹیک ہولڈرز‘ اور ہمارے اپنے لوگ“ تسلیم کر لیا گیا تھا اور 15 فروری 2014ءکو مولانا سمیع الحق کی صدارت میں منعقدہ 32 مذہبی جماعتوں کے قائدین اور 2 سو سے زیادہ ”جیّد“ علماءاور مشائخ نے مشترکہ فتویٰ دے دیا تھا کہ ”طالبان پاکستان کے بیٹے ہیں۔“
طالبان اور دہشت گردوں کے دوسرے گروہوں کے خلاف آپریشن ”ضرب العضب“ کی کامیابی کی صورت میں اُن کے ”نظریاتی سرپرستوں اور حامیوں“ کے سینوں پر تو سانپ لوٹ رہے ہوں گے۔ خدانخواستہ 10 لاکھ سے زیادہ آئی ڈی پیز کی باعزت گھروں کو واپسی اور وزیرستان کے متاثرہ علاقوں میں تعمیر نو کے کاموں میں کوتاہی کی گئی تو نہ جانے کیا ہو جائے۔ اس لئے ضروری ہے کہ حکومت میں شامل اصحاب اور اُن کے اتحادی بھی اپنی جیبیں ڈھیلی کریں۔ صدر مملکت، وزیراعظم، وفاقی وزیر اور مشیر اپنے اخراجات عام لوگوں کی سطح پر لے آئیں، غیر ملکی دوروں اور خاص طور پر اپنا اور اپنے خاندان کے لوگوں کا سرکاری خرچ پر علاج کرنے سے پرہیز کریں کہ ”پرہیز علاج سے بہتر ہے!“
سابق صدر زرداری سمیت پاکستان پیپلز پارٹی کے وہ تمام قائدین جن پر اربوں روپوں کی قومی دولت لوٹنے کے مقدمات ہیں ”جمہوریت کے تسلسل“ کے بینر تلے دودھ کے دُھلے دکھائی دیتے ہیں اور مسلم لیگ (ن) کے لیڈروں کے خلاف پرانے مقدمات کی فائلیں بھی گرد سے اَٹ گئی ہیں۔ ادھر عام لوگوں کے لئے روزمرہ کی ضرورتیں پوری کرنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں، غریبوں کی شادی کے قابل بیٹیاں ماں باپ کے گھروں میں بیٹھی بوڑھی ہو رہی ہیں۔ یہ کس طرح کی جمہوریت کا تسلسل ہے؟ ہر سیاسی اور مذہبی جماعت اپنے اپنے جلسوں پر کروڑوں روپے خرچ کر دیتی ہے؟ وہ کہاں سے آتے ہیں؟ وفاقی وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار کی طرف سے دانت نکال کر یہ کہہ دینا کافی نہیں ہے کہ ”جی ہاں! پاکستان کی 50 فیصدی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے“ شمالی وزیرستان کے بے گھر لوگوں کے ساتھ ساتھ تنگ و تاریک گھروں کے لوگ بھی روشنی کی ننھی سی کِرن کے لئے آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں!

ای پیپر دی نیشن