وی آئی پی کے گارڈ بھی وی آئی پی ہوتے ہیں

Oct 11, 2014

ڈاکٹر محمد اجمل نیازی

نااہل ہونے والے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے سابق ممبر اسمبلی بیٹے عبدالقادر گیلانی کو دو دنوں کے بعد معلوم ہوا ہے کہ وہ اس گاڑی میں نہیں تھا۔ جس کے لئے ان کے وی آئی پی گارڈ نے ایک نہتے اور عام غریب نوجوان کو گولی مار دی تھی۔ انہیں ابھی تک یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ ان کے ’’عظیم‘‘ والد اب ملک کے وزیراعظم نہیں ہیں۔ اور وہ اب ایم پی نہیں ہیں مگر ہمارے ملک میں سابق ہونا بھی ایک عہدہ ہے۔ ’’بڑے‘‘ لوگ دو تین سال وزیر شذیر رہتے ہیں اور پھر ساری عمر سابق وزیر رہتے ہیں اور کبھی ریٹائر نہیں ہوتے۔ مستعفی ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
عبدالقادر گیلانی یہ تو بتائیں کہ اس گاڑی میں کون ایسا تھا جسے اتنی سکیورٹی کی ضرورت تھی۔
مجھے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سے یہی گلہ ہے کہ انہوں نے وزیراعظم گیلانی کو  اصل جرم کی پاداش میں نااہل نہیں کیا تھا۔ توہین عدالت کے جرم میں منصب سے فارغ کیا تھا۔ توہین حکومت اور توہین انسانیت تو کوئی جرم ہی نہیں ہے؟ ہر حکمران اور اس کی آل اولاد اور عزیز دوست وغیرہ لوٹ مار کے جرم میں ملوث رہے۔ ملک و قوم کو لوٹتے رہے اور عوام کو ذلت اور اذیت میں مبتلا کرتے رہے۔
ڈیفنس لاہور میں رہنے والے اکثر وی آئی پی ہیں۔ میرے خیال میں ڈیفنس ہائوسنگ سوسائٹی میں رہنے والے اکثر ڈیفینسو (Defensive) ہوتے ہیں۔ ہروقت اپنا غیرضروری دفاع کرتے رہتے ہیں۔ بے گناہ نوجوان کو قتل کرنے کی واردات بھی اسی غیرضروری دفاع میں ہوئی ہے۔ کوئی خطرہ گیلانی خاندان کو تھا؟ اگر ان کو اتنا خطرہ ہے تو وہ گھر سے کیوں نکلتے ہیں۔ اپنے قلعہ نما ایوانوں میں رہیں۔
اب تو گارڈز رکھنا امیر کبیر اور کرپٹ لوگوں کا فیشن بن گیا ہے۔ یہ سٹیٹس کانشس لوگوں کا مشغلہ ہے۔ یہ ’’سٹیٹس کو‘‘ کا ایک انداز ہے۔ اسی لئے پاکستانی دنیا وی آئی پی کلچر کے خلاف صف آرا ہو چکی ہے۔ وی آئی پی شخصیت کے گارڈز بھی وی آئی پی ہوتے ہیں۔ جیسے افسروں کے چپڑاسی بھی افسر سے زیادہ افسری کے مزے لوٹتے ہیں۔ مزے لوٹنا اور مزے لینا دو مختلف رویے ہیں۔ پاکستان میں ہر طرف لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ اب گارڈز یہ سوچنے لگے ہوں گے کہ ہم گولی چلائیں گے تو ہماری ضرورت کا احساس ہو گا۔  گارڈز بھی نکمے رہ کے تنگ آ گئے ہیں۔ ان کا کوئی کام ہی نہیں ہے۔ کسی کی حفاظت کرنے کے لئے کچھ تو کرنا چاہئے۔
کسی بستی میں ڈاکے زیادہ پڑنے لگے تھے۔ ہر طرف ڈاکوئوں کا راج تھا۔ وہاں کچھ پولیس والے بھیجے گئے کہ ڈاکوئوں کو ختم کریں۔ دو تین دن تک انہیں کوئی ڈاکو نہ ملا کیونکہ ڈاکو ان سے ملے ہوئے ہوتے ہیں۔ انہوں نے شریف شہریوں کو مارنا شروع کر دیا۔ لوگوں نے احتجاج کیا تو انہوں نے کہا کہ اب ہمیں ڈاکو نہیں ملتے تو ہم کیا کریں۔ ہم نے کچھ نہ کچھ تو کارروائی ڈالنا ہے۔ جو قتل ہو گئے ہیں۔ آپ انہیں ڈاکو سمجھ لیں۔
تو جو نوجوان عبدالقادر گیلانی کے گارڈوں نے قتل کر دیا ہے اسے دہشت گرد سمجھ لیں۔ یہ گارڈ کون لوگ ہیں۔ کہاں سے آئے ہیں۔ ان میں انسانیت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ یہ لوگ صرف انہیں انسان سمجھتے ہیں جس کے لئے یہ گارڈ کے فرائض انجام دیتے ہیں۔ ان وی آئی پی لوگوں کا بھی یہی خیال ہے کہ یہ انسان نہیں ہیں کیڑے مکوڑے ہیں۔ مکھی مچھر ہیں۔ چھوٹے گیلانی صاحب کے گارڈ ہوائی فائرنگ بھی کر سکتے  تھے۔ اسے یہ بتا سکتے تھے کہ تم اس قابل نہیں ہو کہ تمہاری موٹر سائیکل ’’ہمارے صاحب‘‘ کی اتنی بیش بہا گاڑی سے آگے نکلے۔ مقتول نوجوان نہتا تھا۔ اس کے پاس کوئی اسلحہ نہ تھا۔ اس کے ساتھ ’’دہشت گردوں‘‘ کا گروپ بھی نہ تھا۔ اس کا بھائی اس کے ساتھ بیٹھا تھا۔ اور اپنے چچا کے گھر بقر عید کا گوشت دینے جا رہا تھا۔ بے رحم گارڈ نے اسے سیدھی  گولی ماری۔ عبدالقادر گیلانی خود گاڑی کے اندر موجود تھا۔ اسے  بھی نوجوان کی یہ جسارت اچھی نہیں لگی تھی اب غلط بات کرنے کی کیا ضرورت  ہے  جبکہ مقتول نوجوان کے والد نے صاف کہا ہے کہ ہم  گاڑی میں بیٹوں کے پیچھے تھے۔  ہمارے سامنے عبدالقادر  گیلانی کی ایما پر گارڈ نے گولی ماری۔ ابھی تک  عبدالقادر گیلانی کو گرفتار نہیں کیا گیا۔ مجھے برادرم قمر الزمان کائرہ کی اس بات پر افسوس ہوا کہ کچھ تو مقتول نے کیا ہو گا کہ اسے گولی ماری گئی۔ اس نے جو بھی کیا ہو گولی مارنے کا جوازکسی کے پاس نہیں ہے۔ کائرہ صاحب بتائیں  کہ یہ واقعہ ن لیگ کے کسی آدمی کے گارڈ نے کیا ہوتا تو پھر بھی وہ یہی بات کہتے۔ سیاست نے ہمارے لوگوں کو اندھا کر دیا ہے۔ اپنے آدمی کی واضح غلطی کو بھی غلطی کہنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔  یہ بھی کسی جیالے کی طرف سے کہا گیا ہے کہ اب یوسف رضا گیلانی کو دوسرے بیٹے سے بھی محروم کرنے کا ارادہ ہے۔
پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر محمود الرشید نے کہا ہے کہ ذمہ داروں کو ڈیفنس کے بڑے چوک میں چند دنوں کے اندر پھانسی  پر لٹکایا جائے گا۔ وہ جنازے  میں شریک تھے۔  ایک پولیس افسر ایس  پی عمر ورک  بھی جنازے میں موجود تھے۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق کلاشنکوف کی گولی مقتول کو لگی ہے۔  یہ ممنوعہ اسلحہ کے زمرے میں آتا ہے۔ کیا وی آئی پی لوگوں کو غیر قانونی کام کرنے کا حق حاصل ہے؟ قانون کا اطلاق سب کے لئے ایک جیسا کب ہو گا؟۔ اب لوگ اپنے حق کے لئے ڈٹ گئے ہیں۔  وی آئی پی کلچر ختم ہو گا تو تھانہ کلچر بھی تبدیل ہوگا۔

مزیدخبریں