دیگی چرغہ ، چرغہ روسٹ

حالیہ دھرنوں کے دوران جب ریحام خاں ابھی عمران خان کے ساتھ ازدواجی بندھن میں منسلک نہیں ہوئیں تھیں تو لڑکیوں میں عمران خان کا شریک حیات بننے کا جنون نقطۂ کمال پر تھا ۔ لاہور کی ایک بڑی یونیورسٹی میں ایک خوبصورت دوشیزہ کا اُسکے دوستوں کے ساتھ ایک دلچسپ مکالمہ سننے کا اتفاق ہوا۔ ایک دوست نے لڑکی کے پی ٹی آئی کیلئے جنون کی وجہ دریافت کی تو جواب آیا ـ"عمران خان"لڑکے کی وضاحت طلبی پر پھر جواب ملا کہ نہ کوئی منشور، نہ ویژن، فقط عمران ، وہ عمران کیلئے کچھ بھی کرسکتی ہے۔ لڑکے نے دریافت کیا کہ شادی بھی؟ پُرزور جواب ملا "قبول ہے ، قبول ہے، قبول ہے"۔ عمر ، کنوارہ یا بیاہا میں کیا رکھا ہے سب قبول ہے ۔ پاس بیٹھا دوسرا دوست جسکے ساتھ لڑکی کی سگائی طے ہوا چاہتی تھی تلملا اٹھا اور پوچھا "کیا تم سنجیدہ ہومجھے چھوڑ کر عمران سے شادی کرلوگی"- "ہاں"لڑکی نے جواب دیا- دوسرے دوست نے پوچھا تو پھر تم دھرنے میں کسی تبدیلی کیلئے نہیں بلکہ شخصیت کیلئے جانا چاہتی ہو جس پر لڑکی نے جواب دیا کہ ہاں اُسے یقین ہے عمران تبدیلی لے آئیگا بعدازاں جب ریحام خاں عمران کی ملکہ بن گئیں تو اُسی لڑکی نے ماتھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے جواب دیا کہ پی ٹی آئی نے عوام کو سیاسی طور پر مایوس کیا ہے۔ اچھی پارٹی کوئی بھی نہیں ہے ۔ سب کو موقع دیا، عمران کو بھی دیکر دیکھ لیں شاید تبدیلی لے آئے۔ 

الیکشن 2013ء میں ایسے پُر آسائش ، اعلیٰ سطحی انتظامی، عسکری و عدالتی طبقات کو عرصہ دراز بعد سیاسی عمل میں شمولیت کرتے دیکھا ۔ ان افراد نے بھی پولنگ اسٹیشن کے دھکے کھائے جنہوں نے کبھی زندگی میں ووٹ نہیں ڈالا تھا، لیکن بعدازاں دھرنوں کے سبب منفی اثرات اور روایتی سیاست جس سے عوام بالخصوص پڑھا لکھا طبقہ سخت نالاں ہیں کہتے سنائی دیئے کہ وہ بہت مایوس ہوئے ہیں۔ وہ تو تبدیلی اور غیر روایتی سیاست کے فروغ کیلئے باہر آئے تھے کہ پڑھے لکھے متوسط طبقہ کے باکردار امیدوار سامنے لائے جائینگے۔ پیسے کا عمل دخل نہیں ہوگا۔ صرف قابلیت اور دیانت ہی سیا سی و انتظامی قیادت کا معیار ہوگا۔لوگ اپنی آزادانہ رائے کا اظہار کر پائیں گے۔ روایتی دھکم پیل، گالم گلوچ اور بلندو بانگ کھوکھلے نعروں سے نجات ان کا مقدر بنے گی ۔لیکن ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا ، وہی امیدوار ، وہی گالم گلوچ، وہی اگاڑ پچھاڑ، وہی الزام تراشی قیادت اور عوام کے درمیان وہی شاہی ادب آداب اور فاصلے کہ پی ٹی آئی کی کئی خواتین کو خفیہ اور اعلانیہ آنسو بہاتے دیکھا کہ اعلیٰ قیادت تک رسائی تو دور کی بات، ضلعی یا صوبائی قیادت سے شرفِ ملاقات ایک سراب کی سی حیثیت اختیار کرچکا ہے ۔
زندہ دلانِ لاہور چرغہ بہت پسند کرتے ہیں ۔ ایک وقت تھا کہ روسٹ چرغہ لاہوریوں کی جان تھا۔ روسٹ چرغہ تیل میں خُوب تلا جاتا ہے ۔اسکی رنگت سُرخ اور منہ میں پانی لانے والی ہوتی ہے ۔ خُوب مصالحہ دار اور چٹ پٹا ہوتا ہے کہ کھاتے ہی انسان کے چاروں طبق روشن ہوجاتے ہیں بعد ازاں ہاتھ کی صفائی رکھنے والے باورچیوں نے لاہوریوں کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نسبتاً کم مصالحہ دار اورکم مرغن چرغہ متعارف کروا دیا جسے عموماً دیگ میں سٹیم کے ذریعے پکایا جاتا ہے اوریہ دیگی چرغہ کہلاتا ہے۔ اسکی رنگت گندمی اور پھیکی سی ہوتی ہے ۔ اس میں تیل اور مصالحے کم استعمال کئے جاتے ہیں کیٹسرول اور موٹاپے پر قابو پانے والے افراد اسے کھا کر اپنا چسکا پورا کرتے ہیں ۔ دونوں چرغوں میں پروٹین یکساں ہوتی ہے تاہم ان کا عادی اس کے بغیر رہ نہیں پاتا۔
تقسیمِ ہند سے قبل انگریز کے مرتب کردہ آئین گورنمنٹ آف انڈیاایکٹ 1935ء کے تحت 1937میں الیکشن کروائے گئے تو متحدہ پنجاب میں مسلم لیگ کو بہت بُری شکست کا سامنا کرنا پڑا- میجر سکندر حیات ٹوانہ کی قیادت میں مسلم یونینسٹ پارٹی نے 175میں سے 95نشستیں حاصل کرتے ہوئے اسمبلی میںاکثریت حاصل کی۔ کانگریس نے 18، سکھوں کی اکالی دل پارٹی نے 10جبکہ مسلم لیگ نے صرف دو نشستیں حاصل کیں جن میں سے راجہ غضنفر بھی بعد اذاںفلور کراسنگ کرتے ہوئے یونینسٹ پارٹی میں جاملے لیکن قائداعظم محمد علی جناح کی عوام رابطہ حکمت عملی، منشور کی بنیاد پر سیاست اور سکھوں، ہندئوں اور مسلمانوں کے مابین مذہبی فسادات اور سانحہ شہید گنج کے پس منظر میںمصالحتی کردار ادا کرنے پر عوام میں بہت پذیرائی اور مقبولیت حاصل کی جس کی وجہ سے اُنکے اور سکندر حیات کے درمیان لکھنؤمیں 1937 میں طے پائے جانے والے جناح - سکندر پیکٹ نے مسلم لیگ کی پنجاب کی قانون ساز اسمبلی میں اہمیت کو جلا بخشی۔ یہاں تک کہ لوگ سکندر حیات کی حکومت میں بھی مسلم لیگ کے ذریعے نوکریاں حاصل کرتے دکھائی دیئے۔کانگریس نے پنجاب اسمبلی میں ہندو اور سکھ نمائندوں کی حمایت حاصل رکھتے ہوئے سخت مسلم لیگ مخالف رویہ اختیار کیئے رکھا اور مسلمانوں کے جائز مطالبات کو یقینی بنانے کی بجائے مسلمان مخالف پالیسیاں اختیار کیں جس سے مسلمانوں کی اکثریت نہ صرف ہندو کانگریس ، سکھ اکالی دل بلکہ سکندر حیات کی مسلم یونینسٹ کی حکومتی پارٹی سے نالاں ہوگئی اور تمام تر ہمدردیاں قائد اعظم کے زِیر سایہ مسلم لیگ کی طرف منتقل ہوگئیں یہاں تک کہ وہ مسلم لیگ جسے 1937 کے انتخابات میں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا چند سالوں میں ایک علیحدہ اسلامی ریاست حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔
آج حلقہ NA122 میں ضمنی الیکشن بھی اُسی مقام پر ہو رہا ہے جہاں کبھی 1937کی سیاست کارفرما تھی۔ پی ٹی آئی کانگریس کی طرح اپنی حاصل کردہ حکومت کی کارکردگی پر توجہ مرتکز کرنے اور عوامی حمایت حاصل کرنے کی بجائے، محض مسلم لیگ مخالفت کی حکمت ِعملی پر عمل پیرا عوام میں اپنی جگہ بنانا چاہتی ہے جو ماضی میں پی ٹی آئی کیلئے شدید ہمدردیاں رکھتے تھے جو آج انکی خواہشات اور امیدوں کے خلاف اس کے روایتی سیاسی رویہ اختیار کرنے کی وجہ سے نالاں اور قدرے مایوس دکھائی دیتی ہے۔ آج بھی پی ٹی آئی کوئی مربوط اور مضبوط سیاسی منشور پیش کرنے کی بجائے لعن طعن اور حرف الزامات کی روایتی سیاست پیش کرتے عوام میں حاصل شدہ ہمدردی اور حمایت بھی کھوتی نظر آتی ہے۔
دوسری طرف مسلم لیگ ، پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی پارٹیاں بھی بہرحال قائد اعظم کے نقشہ قدم پر چلنے کی بجائے کسی مربوط اور مضبوط منشور اور عمل سے عاری اپنے حلقے بچاتی نظر آتی ہیں۔ سیاسی افق پر ووٹر اپنا صحت مند، آزادانہ اور منصفانہ ووٹ پیش کرنے کی بجائے دیگی چرغے یا روسٹ چرغے میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے پر مجبور اور بھٹکتا نظر آتا ہے۔ جس سے قومی سیاسی دُبِ اکبر بادلوں میں چھپا دکھائی دیتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...