ایسا کیوں ہے کہ میرے وطن، میرے پیارے وطن کی خوبصورتی، دلنشینی و رعنائی ماند پڑ رہی ہے، روشنیوں نے دمکتے شہروں کی راتیں اور جگمگاتے قمقموں سے پ±رسکون و پ±رکیف ماحول کی تصویر کشی کرتے میرے وطن کے دن ایذا¶ں کا پیام دینے لگے ہیں۔ کیوں ترقی و استحکام کے خواب چکنا چور ہو رہے ہیں؟ دیکھئے ناں پاور پراجیکٹس کی تکمیل کے مرحلے گرچہ لاتعداد وسائل و صلاحیتوں سے بہرہ مند ہیں لیکن یہ صلاحیتیں و وسائل فائدہ مند نہیں ہو پاتے، یاں .... حال یہ ہے کہ جو مظلوم ہے وہ ظالم کے ظلم کا شکار ہی نہیں بلکہ ظالموں کے مضبوط پنجے مسلسل مظلوم کی گردن میں گڑھے ہوئے ہیں، غریب .... غریب کا تو مہنگائی ہی نے جینا دوبھر کر دیا ہے، عوام کےلئے انصاف کا حصول خام خیال بن کر رہ گیا ہے، شریف آدمی کا اعتماد عدالتی نظام سے بھی اٹھ گیا ہے اور وہ عدالتی کارروائیوں سے یا عدالت میں جانے سے کنی کتراتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ اگر عدالت سے انصاف لینے گیا تو اس کی بچی کھچی عزت اور جمع پونجی بھی چلی جائے گی؟ عدالتوں سے انصاف کے حصول کےلئے 200سال تو لگ ہی جاتے ہیں، نسلیں کھپ جاتی ہیں، سستا اور فوری انصاف آخر ہے کہاں؟
بااثر و بااختیار بیشتر صاحبان کرپشن کیسز میں مطلوب ہیں۔ چھوٹے غریب مزدوروں و کسانوں و نوجوانوں کو تو قرض نہیں ملتے جبکہ اعلیٰ حکام اربوں کے قرضے معاف کرا لیتے ہیں؟ 46قتل کرنے والے ضمانت پر رہا ہو جاتے ہیں؟ حکام بالا بیمار ہو جائیں تو علاج کےلئے بیرون ملک روانہ ہو جاتے ہیں لیکن کرپشن میں پکڑے جائیں تو پاکستانی ہسپتال یاد آ جاتے ہیں کہ جیل سے بہتر ٹھکانہ ہے .... ہماری استعداد و قابلیت کا منہ بولتا ثبوت یہ ہے کہ ملک کے اندر پانی کی جو قلت پیدا ہو چکی ہے اس سے ہمارے بڑے شہروں کے باسی پانی کی بوند کےلئے ترستے ہیں مگر عجیب تماشہ یہ ہے کہ اسی دوران سیلاب کی زد میں آکر گا¶ں کے گا¶ں، قصبوں کے قصبے ڈوب رہے ہوتے ہیں .... ابھی اور سنیئے کہ بابا بلھے شاہ کے شہر میں معصوم بچوں کے ساتھ وحشیانہ درندگی کا کھیل کھیلنے والوں کی خلاف پولیس والے مقدمہ تک درج کرنے کو تیار نہیں ہوئے؟؟ ہماری آئے روز کے بم دھماکوں کی آوازوں سے کانوں کی سماعت متاثر ہو چکی ہے۔ سڑکوں، بازاروں، امام بارگاہوں، چیک پوسٹوں، ہسپتالوں، عبادت گاہوں و درسگاہوں میں نعشوں کے انبار دیکھے گئے ہیں۔ لاڈلوں کے گھر سے نکلتے وقت ما¶ں کے دل بھی دھڑکتے ہیں اور جب تک یہ لاڈلے گھر واپس نہیں پہنچ جاتے مائیں ”خدا خیر کرے“ کی دعائیں کرتی رہتی ہیں۔ ویسے بھی بنیاد پرست، دہشتگرد اور بدعنوان قوم کے طور پر جب ہم اقوام عالم میں پکارے جاتے ہیں تو دل چھلنی ہو جاتا ہے۔ کیا یہ سچ نہیں کہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ وطن پاکستان کو اسلامی، جمہوری اور فلاحی مملکت بنانا چاہتے تھے .... وہ عظیم قائدؒ .... پاکستان کو تعصب، گروہ بندی، صوبائی، لسانی اور مذہبی منافرت سے بالا تر ہو کر ایک عظیم ریاست بنانا چاہتے تھے؟ پاکستان کی تکمیل کےلئے الحاق کشمیر کو ناگزیر سمجھتے تھے لیکن ہم ہیں کہ چالباز بھارت کو سفارتی و سیاسی سطح پر چت نہ کر پائے الٹا اس سے دوستی کی پینگیں چڑھاتے ہیں۔ قومی مفادات کا تحفظ اور عوامی بہبود کے ٹھوس ایسے اقدامات جو ملک و قوم کی قومی و عالمی سطح پر تقدیر بنا دیں حقیقت میں عوامی رہنما¶ں و حکومتی نمائندوں کا اصل کام ہے الیکشن جیتنے والوں کو بالخصوص انجام دینا ہے۔ حلقہ 122کے ضمنی الیکشن کے آج نتائج غیر سرکاری و سرکاری سطح پر آ جائیں گے مگر سوال یہ ہے کہ الیکشن نتائج بہر حال کس کو فروٹس دیتے ہیں۔ ایشو یہ ہے کہ زور و شور سے اپنے حق میں الیکشن نتائج کرنے کی انتھک محنت کرنے والے کیا جیتنے پہ اسی دم خم کے ساتھ پبلک سروس بھی انجام دیں گے۔ جس طرح ٹرانسپورٹ، ایندھن، بینرز اور میڈیا اشتہارات پہ پیسہ استعمال ہو رہا ہے۔ وہ لوکل گورنمنٹ کے قیام اور حلقہ 122 کے ضمنی الیکشن کے نتائج کے بعد کیا ہوا میں اڑ جائے گا۔
کاش یہ وقت و پیسہ علاقائی ترقیاتی کاموں میں استعمال ہوتا۔ یہاں بات جیتنے والوں کی ہوئی ہے اور جیتنے والوں کی ہی بات رہتی ہے مگر بات سپورٹر اور ووٹر کی بھی ہونی چاہیے۔ بات پسے ہوئے عوام کی بھی ہونی چاہیے۔ یہاں میں نے پہلے جیسا کہ ذکر کیا کہ میرے پیارے وطن کی رعنائی اس لئے ماند پڑ رہی ہے کہ یہاں ناانصافی بہت ہے۔ غریب کو پیٹ بھر کے روٹی نہیں ملتی۔ نوجوان گریجوایٹ کیلئے روزگار نہیں ہے۔ ملک میں آبی مسائل گھناﺅنی صورت اختیار کر چکے ہیں، ہائیڈرو پاور اور الیکٹریکل انرجی کا شدید بحران پیدا ہو چکا ہے۔ ذخیرہ اندوزی عام ہے۔ رشوت، سفارش و اقرباءپروری کا بازار گرم ہے تبھی تو دشمن ہمسائے ملک کیلئے ہمارے اندرونی معاملات کا استحصال کرنا اور کسی بھی قسم کی ضرب کاری کرنا آسان ہو گیا ہے الیکشن جیتنے والوں کو ایک پڑھا لکھا طبقہ یہی کہتا سنائی دے رہا ہے کہ آپ حلقہ 122 جیت کے یا بلدیاتی انتخاب جیت کر کیا کرلیں گے اور جیتنے والوں نے پہلے کیا تیر مار لیا؟ بہتری کا کام تیر مارنا ہے حالانکہ جیتنے والوں کی الیکشن جیتنے کی مسرت اپنی بلکہ خالصتاً اپنی ذاتی ہوتی ہے۔ اب قوم جاگ چکی ہے وہ مزید بیوقوف بننے سے بچنا چاہتی ہے۔ اگر فوجی و رینجرز پاور سے ملک کے بعض حصوں سے ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، ڈرگ مافیا اور اسلحے کے عام استعمال کو روکا جا سکتا ہے تو سول حکمران، عوامی ووٹوں سے اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھنے والے عوامی رہنما، عوامی فلاح وبہبود کیلئے سماجی بحرانوں اور معاشرتی نظام کے سقموں کو دور کر کے غریب عام آدمی کی زندگی کو پ±رسکون و پ±رامن کیوں نہیں بنا سکتے۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے فرمایا تھا کہ ” میں پاکستان کی صورت میں ایک ایسی مملکت کا خواب دیکھ رہا ہوں جہاں غریب عوام آرام اور سکھ کی زندگی گزار سکے“ اگر دو قومی نظریہ نہ ہوتا تو پاکستان نہ ہوتا اور اگر پاکستان نہ ہوتا تو ہم وہ نہ ہوتے جو آج ہم ہیں۔ اب ہم پاکستانی ہیں تو ہمیں پاکستانی ہونے کی ون نیشن تھیوری کی روح کو تازہ کرنا ہوگا کیونکہ قومی وحدت اور قومی اکائی میں ملکی، ریاستی اور ہماری قومی بقاءہے اور ون نیشن تھیوری پاکستانی وحدانیت ہے۔ صوبائی، لسانی، گروہی مذہبی تعصب ہماری قومی واحدانیت کا قتل ہے اور اس قتل کی اجازت نہ تو سول حکمرانوں کو دی جا سکتی ہے اور نہ سیاسی جماعتوں کو اور نہ بیرونی شرپسند عناصر کو۔ الیکشن جیتنا مشکل ہے لیکن اپنی جیت کے تقاضوں اور ذمہ داریوں کو پورا کرنا مشکل ترین ہے۔ ملکی حالات دیکھ کر تو من کہتا ہے کہ جیسے ہم پہ کبھی فرض شناس حکمران آئے ہی نہیں۔ ملکی اندرونی خلفشار و بیرونی انتشار بتا رہے ہیں غالباً ہمارے قومی وطن پہ الیکشن جیتنے والے ہی تھے۔ سرمایہ دار، ساہوکار، جاگیردار، قبضہ مافیا۔ کہاں گئی عوامی حکومت، جمہوری حکومت، فلاحی حکومت۔ الیکشن ہوتے رہتے ہیں۔ جیت ملتی رہتی ہے مگر جیت کے ثمرات کس کےلئے؟؟