1۔ دنیا میں سب سے طویل، مہنگی اور تھکا دینے والی صدارتی دوڑ امریکہ میں ہوتی ہے۔ تقریباً ایک سال قبل ہی صدارت کے طلبگار امیدوار تگ و دو شروع کر دیتے ہیں۔ ایک نہایت ہی پیچیدہ، گنجلک اور صبر آزما پراسس سے گزر کر دو بڑی پارٹیاں اپنے امیدوار نامزد کرتی ہیں۔ ہر لیپ سال کے نومبر میں الیکشن ہوتے ہیں۔ جیتنے والا اگلے سال 20 جنوری کو صدارت سنبھالتا ہے چونکہ امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور ہے اس لئے اس کا صدر بھی اس کی طاقت کا مظہر ہوتا ہے۔ سیاسی اصطلاح میں تین قسم کے امیدوار ہوتے ہیں۔ منطقی امیدوار، ”فیورٹ سنز“ اور ڈارک ہارسز: منطقی امیدوار حاضر سروس صدور ہوتے ہیں۔ جیسے اوبامہ دوسری مرتبہ منطقی امیدوار تھے۔ فیورٹ سنز نیشنل ہیروز ہوتے ہیں جیسے جنرل آئزن ہاور تھے۔ ڈارک ہارسز گوشہ گمنامی سے ایک دم ابھرتے ہیں۔ حالات کا جبر انہیں منزل مقصود تک پہنچا دیتا ہے، جیسے جمی کارٹرتھے۔
2۔ اس مرتبہ قرعہ ہلری کلنٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ کے نام نکلا ہے۔ ہلری سابق صدر بل کلنٹن کی اہلیہ ہیں۔ آٹھ سال یہ امریکہ کی فرسٹ لیڈی رہیں۔ وائٹ ہاﺅس کے شب و روز سے آشنا ہیں۔ چار سال سیکرٹری آف سٹیٹ رہیں۔ امریکی صدر کے بعد یہ طاقت ور ترین عہدہ تصور ہوتا ہے۔ نیو یارک کی سینیٹر بنیں۔ مصنفہ ہیں۔ پیشے کے اعتبار سے وکیل رہی ہیں۔ ٹرمپ امریکہ کا ارب پتی تاجر ہے۔ کئی کیسینوز اور سکائی سکریپر کا مالک ہے۔ کامیاب بزنس مین ہے۔ اس نے امریکیوں کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہے۔ کہتا ہے امریکہ میں دہشتگردی ختم کر دےگا۔ دنیا میں مسلمان خرابی کی جڑ ہیں۔ ان کا امریکہ میں داخلہ بند کر دےگا۔ وہ جو امریکی باشندے ہیں، انکی کڑی نگرانی کی جائےگی۔ چونکہ میکیسیکو سے لاکھوں لوگ غیر قانونی طور پر امریکہ آتے ہیں۔ آدھی تنخواہ پر کام کر کے امریکیوں کا حق مارتے ہیں اس لئے دیوار چین کی طرز پر دو ملکوں کے درمیان دیوار کھڑی کردےگا۔ نیٹو ممالک کو مجبور کریگا کہ وہ امریکہ کی جنگ زیادہ موثر انداز میں لڑیں اور اخراجات بھی برداشت کریں۔ گو عام آدمی کو یہ باتیں احمقانہ لگتی ہیں لیکن دہشتگردی سے تنگ آئے ہوئے امریکیوں کو متاثر کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 27 ستمبر کی ڈیبیٹ سے پہلے یہ کلنٹن کے شانہ بہ بشانہ کھڑا تھا۔
3۔ فارسی زبان کا محاورہ ہے۔ ”تامرد سخن نہ گفتہ باشد، عیب و ہنرش نہفتہ باشد، باہمی مباحثہ سے آدمی کی اصل شخصیت آشکار ہو جاتی ہے۔ ووٹرز کو ادراک ہوتا ہے کہ کون کتنے پانی میں ہے۔ امیدوار راست باز ہے یا کذب بیانی کر رہا ہے۔ حسِ مزاح رکھتا ہے یا خشک مزاج ہے، حاضر جواب ہے یا کوڑھ مغز ہے۔ باڈی لینگوئج کیسی ہے۔ معیشت، خارجہ پالیسی اور دیگر امور پر کس قدر دسترس رکھتا ہے۔
4۔ ڈیبیٹ سے پہلے ہلری کو چند Disadvantages تھے۔ a۔ آج تک کوئی عورت صدر نہیں بن سکی۔ b۔ بطور سیکرٹری اس سے چند بنیادی غلطیاں ہوئیں۔ E. Mails کا انکشاف، بن غازی کا قتل عام بھی اس کے کھاتے میں ڈال دیا گیا۔ ایک عام تاثر قائم کیا گیا کہ وہ قابل اعتبار نہیں ہے۔ اسکی صحت اس قابل نہیں کہ صدارتی ذمہ داریاں سنبھال لیں وغیرہ۔
5۔ 80فیصد ایسے ووٹر ہیں جنہوں نے پہلے سے ذہن بنایا ہوتا ہے کہ کس پارٹی کو ووٹ دینا ہے۔ 20 فیصد کے لگ بھگ وہ لوگ ہوتے ہیں جو مباحثہ کا انتظار کرتے ہیں۔ دراصل یہی لوگ کسی امیدوار کی ہار جیت میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ 27 ستمبر کی ڈیبیٹ میں ہلری نے ٹرمپ کو ادھیڑ کر رکھا دیا۔ قوم کو پہلی بار احساس ہوا ہے کہ جس شخص کو شاخ نبات سمجھتے تھے وہ برگ حشیش نکلا ہے مبصرین کی رائے میں He was out witted, out manouvred and totally Exposed کچھ یوں گمان ہوتا تھا کہ ہلری ایک منجھے ہوئے گرم و سرد چشیدہ شخص سے بحث نہیں کر رہی بلکہ ایک شرارتی بچے کی Spanking کر رہی ہے۔ ایسا بچہ جسے آموختہ یاد نہیں! حیران کن بات یہ ہے کہ بغیر تیاری کے یہ شخص سیاسی اکھاڑے میں کیسے کود گیا۔ پکی عمر کے باوصف ہیلری ہشاش بشاش، خوبصورت اور توانا لگ رہی تھی۔ اسکے برعکس ٹرمپ کا چہرہ سُتا ہوا تھا۔ جھریاں نمایاں تھیں۔ آنکھیں نیم وا، جیسے نیند یا نشے کی حالت میں ہو۔ وہ ہیلری کے تابڑ توڑ حملوں، تند و تیز جملوں اور چبھتے ہوئے سوالوں کی تاب نہ لا سکا۔ لڑکھڑاتی ہوئی زبان میں دعویٰ کیا کہ وہ امریکہ میں دو کروڑ کے لگ بھگ نئے جاب پیدا کرےگا۔ اس کےلئے تمام امریکی کارخانہ داروں کو کہے گا کہ وہ چین، کوریا، جاپان، تائیوان سے اپنی انڈسٹری امریکہ واپس لے آئیں۔ اینکر نے پوچھا بالفرض انہوں نے انکار کر دیا تو سستی لیبر کی وجہ سے جس لاگت پر مال ان ملکوں میں بن سکتا ہے وہ امریکہ میں ممکن نہیں تو ٹرمپ کے پاس کوئی واضح جواب نہیں تھا۔ امریکی عوام کیلئے سب سے قابل نفرت چیز جھوٹ بولنا ہے۔ قدم قدم پر اس کا جھوٹ پکڑا گیا۔ بولا، اس نے کبھی عراق کی جنگ کی حمایت نہیں کی۔ Birther Issue سب سے پہلے ہیلری نے اٹھایا تھا۔ Reality Checkمیں اس کا جھوٹ پکڑا گیا۔ اس کی گھبراہٹ کا یہ عالم تھا کہ ٹرمپ نے پانچ مرتبہ پانی پیا۔ ہیلری نے پانی کا ایک گھونٹ بھی نہیں لیا۔ جب ہیلری کی باری آتی یہ اسے ٹوک دیتا۔ اس حرکت سے اسکی ناصبوری عیاں ہو گئی۔ سب سے دلچسپ بات اس نے آخر میں کی۔ ”صدر بن کر میں جاپان، کوریا اور سعودی عرب سے انکی سکیورٹی کا معاوضہ طلب کروں گا.... ”ناطقہ سرباگریباں ہے اسے کیا کہئے! “
اگر امریکہ یہ مفروضہ سکیورٹی جاپان کو نہ دیتا تو اب تک جاپان دنیا کی تیسری بڑی ایٹمی قوت بن چکا ہوتا۔ اسکے کیا مضمرات ہوتے؟ یہ جاننے کیلئے ٹرمپ کو جاپان کی تاریخ اور اس قوم کے مزاج کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ بغیر کچھ لئے سعودی عرب کا دفاع اچھا لطیفہ ہے۔ اس نیک بخت کو علم نہیں کہ امریکہ کیا کچھ وصول کر رہا ہے۔ تیل نکالنے والی کمپنیاں سب امریکی ہیں۔ نفع کی صورت میں ایک خطیر رقم امریکہ چلی جاتی ہے۔ شاہی خاندان و دیگر شیخ صاحبان نے سینکڑوں ارب ڈالر امریکی بنکوں میں رکھے ہوئے ہیں۔ نہ تو یہ رقم خرچ کر سکتے ہیں اور نہ نکلوا سکتے ہیں بالفرض کوشش کریں بھی ایسا ممکن نہیں ہے۔ سب Assets Freezہو جائینگے۔ تو پھر یہ رقم کسی کی ہوئی؟