عمران کی دھرنا تحریک کے اعلان کے باوجود گیس کے نرخوں میں اضافہ کا فیصلہ‘ حکومتی من مانیوں میں تسلسل کا عکاس
اوگرا نے گیس کی قیمت میں 36 فیصد اضافے کا فیصلہ کرلیا ہے جس کے تحت گیس کمپنیاں صارفین سے رواں مالی سال کے دوران 341‘ ارب روپے سے زائد وصول کریں گی۔ سرکاری دستاویز کے مطابق اوگرا نے رواں سال کیلئے سوئی ناردرن کے نرخوں میں 57.89 ایم ایم بی ٹی یو اضافے کی منظوری دیدی ہے۔ وفاقی حکومت کے فارمولے کے مطابق سوئی ناردرن کی نئی قیمت ملک بھر میں نافذ کی جائیگی۔ اس سلسلہ میں اوگرا نے سوئی ناردرن کی اپریٹنگ انکم 201 ارب روپے جبکہ اپریٹنگ اخراجات 161‘ ارب روپے طے کئے ہیں۔ اس طرح سوئی ناردرن کا اپریٹنگ منافع 39.5‘ ارب روپے منظور کیا گیا ہے۔ سوئی ناردرن کو رواں مالی سال کے دوران 225‘ ارب روپے کا ریونیو درکار ہوگا۔ وزیراعظم کی جانب سے نئی سکیموں پر گیس کنکشن پر عائد پابندی میں نرمی کے باعث اوگرا نے سوئی ناردرن کو ارکان پارلیمنٹ کی 5600 کلومیٹر مختلف گیس سکیموں کیلئے صارفین سے 9‘ ارب روپے وصول کرنے کی بھی منظوری دے دی جبکہ سوئی ناردرن گیس کی اوسط قیمت 42274 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو سے بڑھا کر 48063 روپے مقرر کر دی گئی ہے۔ اوگرا نے سوئی ناردرن اور سدرن کے ٹیرف کا فیصلہ اوگرا آرڈی ننس کی روشنی میں وزارت پٹرولیم کو ارسال کردیا ہے اور وفاقی حکومت سے ایڈوائس طلب کی ہے کہ گھریلواور دیگر صارفین پر گیس کے نرخوں میں اضافے کی شرح کس حد تک منتقل کی جائے۔
وزارت پٹرولیم کے ذیلی ادارے کی حیثیت سے اوگرا کی جانب سے گیس کے نرخوں اور ٹیرف میں ردوبدل کا فیصلہ حکومت کی مرضی کے تحت ہی کیا جاتا ہے اور اسکے مثبت یا منفی اثرات بھی حکومت کی کارکردگی پر ہی مرتب ہوتے ہیں اس لئے اس موقع پر جبکہ عمران خان اپنی حکومت مخالف تحریک کے دوران وزیراعظم کے استعفے تک اسلام آباد میں دھرنا دیئے رکھنے کا اعلان کرچکے ہیں اور دوسری اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے بھی حکومت مخالف تحریک کا عندیہ دیاجارہا ہے۔ اوگرا کی جانب سے سوئی ناردرن گیس کے نرخوں میں 36 فیصد اضافے کا فیصلہ اپوزیشن کی ممکنہ حکومت مخالف تحریک کو مہمیز لگانے کے مترادف ہے۔ اگر تو حکمران مسلم لیگ (ن) اور اسکے قائدین اتنے پراعتماد ہیں کہ کوئی حکومت مخالف تحریک انکے اقتدار کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی تو انہیں اپنے اس اعتماد کو ضرور آزمانا چاہیے جبکہ ان کا یہ اعتماد بعض دوسرے پالیسی معاملات کے حوالے سے بھی دائو پر لگا ہوا ہے۔ اس صورتحال میں عوام کی مخالفت بڑھانے والے غیرمقبول فیصلے کرنا اپنے پائوں پر خود ہی کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے جبکہ اگلا سال انتخابی سرگرمیوں کے آغاز کا سال ہے جس میں عوام حکمرانوں سے زیادہ سے زیادہ ریلیف کے متقاضی ہونگے۔ اگر اس صورتحال میں بھی حکومت گیس کے نرخوں میں 36 فیصد اضافہ کا مہنگائی کے مارے عوام کو ٹیکہ لگانا چاہتی ہے تو اس کا اگلے انتخابات میں اسے وہی خمیازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے جو گزشتہ انتخابات میں پیپلزپارٹی بھگت کر راندۂ درگار ہوگئی تھی۔
گزشتہ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے اس وقت کی حکمران پیپلزپارٹی کی عوام دشمن پالیسیوں اور اسکی مسلط کردہ مہنگائی‘ بے روزگاری اور توانائی کے گھمبیر ہوتے بحران کو ہی اپنے حق میں عوام سے کیش کرایا تھا جس کیلئے انہوں نے عوام کو حکومت کے مسلط کردہ تمام مسائل سے نجات دلانے کے دعوے اور وعدے کئے اور بالخصوص بجلی کی لوڈشیڈنگ سے ملک اور عوام کو مستقل نجات دلانے کا وعدہ کیا گیا‘ اسی طرح عوام کو یوٹیلٹی بلوں میں کمی کے بھی سہانے سپنے دکھائے گئے چنانچہ عوام نے اپنے ووٹ کی طاقت سے خاموش انقلاب برپا کرکے مسلم لیگ (ن) کے اقتدار کی راہ ہموار کردی تاہم عوام کو مسلم لیگ (ن) کے اقتدار کے ابتدائی مہینوں میں ہی مسلم لیگ (ن) کی حکومتی پالیسیوں سے سخت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا اور وہ وزیراعظم نوازشریف کی حلف اٹھانے کے بعدکی گئی اس تقریر پر بہت حیران ہوئے کہ ان سے دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کی توقع نہ کی جائے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت عوام سے کئے گئے وعدوں کے مطابق انکے روٹی روزگار‘ غربت‘ مہنگائی کے مسائل تو کیا حل کرتی‘ الٹا حکومتی پالیسیوں سے ان مسائل میں اضافہ ہوگیا کیونکہ حکومت نے ہر ماہ پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ کرنا اپنا معمول بنالیا جبکہ بجلی کی لوڈشیڈنگ کا عذاب بھی عوام پر اسی طرح مسلط رہا۔ عوام بجلی کی قلت کا عذاب بھی برداشت کرتے رہے اور روزافزوں مہنگائی اور بے روزگاری نے بھی انہیں بدحال کردیا‘ نتیجتاً عوام کیلئے تنگ آمد بجنگ آمد کی نوبت آگئی۔
عمران خان نے دو سال قبل عوام کے بدلتے ہوئے تیور بھانپ کر ہی حکومت مخالف لانگ مارچ اور دھرنا تحریک کا آغاز کیا تھا جس کیلئے کینیڈین شہری ڈاکٹر طاہرالقادری بھی سرگرم رہے اور اسلام آباد میں ان دونوں حضرات کے دھرنے کے تسلسل میں حکومت کیلئے ’’صبح گیا یا شام گیا‘‘ والی کیفیت بنی رہی جس پر حکمرانوں نے پارلیمنٹ کی چھتری کے نیچے آکر دوسری تمام حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں سے سسٹم کو بچانے کے نام پر اپنے اقتدار کیلئے بیساکھیاں حاصل کیں اور عوام کو وقتی طور پر مطمئن کرنے کیلئے پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں کمی کا سلسلہ شروع کر دیا مگر جیسے ہی حکومت سیاسی بحران سے باہر نکلی‘ اسکی عوام دشمن پالیسیوں کا سلسلہ پھر شروع ہو گیا۔ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں کی گئی معمولی کمی بھی پٹرولیم پر اضافی جی ایس ٹی لگا کر پوری کرلی گئی اور ساتھ ہی بجلی کے نرخوں میں اضافے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا گیا۔ نتیجتاً عوام مہنگائی کے عفریت کے شکنجے میں آکر زندہ درگور ہونے لگے۔
اگر حکومت کو ایشوز پر سیاست کرنیوالی بہتر اپوزیشن کا سامنا ہوتا تو اسے من مانیوں کا کبھی موقع نہ ملتا مگر بدقسمتی سے سب سے زیادہ عوامی حمایت حاصل ہونے کی داعی پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے عوام کو درپیش مسائل پر حکومت کو ’’ٹف ٹائم‘‘ دینے کے بجائے پہلے انتخابی دھاندلیوں کو فوکس کیا اور پھر پانامہ لیکس کا رگڑنا دینا شروع کر دیا۔ یقیناً ان ایشوز پر عمران خان کو مقبول عوامی حمائت حاصل نہیں ہو سکتی تھی کیونکہ عوام کو تو ’’مرے کو مارے شاہ مدار‘‘ کا نقشہ بنانے والے اپنے گوناں گوں مسائل کے حل سے ہی سروکار ہے جن پر توجہ نہ دینے کی عمران خان نے قسم کھا رکھی ہے۔ اسی طرح پیپلزپارٹی ابتدائی تین سالوں میں تو انتخابات میں اپنی بدترین شکست کے باوجود اپنی نئی صف بندی نہ کرسکی چنانچہ اس پر اسی طرح فرینڈلی اپوزیشن کی چھاپ لگ گئی جیسے اسکے دور حکومت میں میاں نوازشریف اور انکی مسلم لیگ (ن) کی سیاست سے فرینڈلی اپوزیشن کا تاثر غالب آیا تھا۔ مسلم لیگ (ن) کو خوش قسمتی سے اپنے مدمقابل مضبوط اور عوامی مقبولیت والی اپوزیشن کا سامنا نہیں کرنا پڑا اس لئے اس نے عوام دشمن اور من مانی پالیسیاں برقرار رکھی ہوئی ہیں اور اب حکمرانوں کو ایشوز پر سیاست نہ کرنیوالی کمزور اپوزیشن کے باعث ہی یہ زعم ہو گیا ہے کہ وہ چاہے جتنی بھی من مانیاں کرتے رہیں‘ عوام ان سے نظریں پھیر کر دوسری جانب نہیں جائینگے۔ ان کا یہی زعم انہیں گیس اور پٹرولیم کے نرخوں میں اضافے کی راہ دکھا رہا ہے۔ چنانچہ بجلی کی فراہمی کے ذمہ دار اداروں کے لائن لاسز پورے کرنا ہوتے ہیں تو اس کیلئے بھی بجلی کے بلوں پر اضافی ٹیکس لگا کر عوام سے بجلی چوری اور لائن لاسز سے ہوینوالے نقصانات پورے کرائے جاتے ہیں۔ آج اگر سوئی گیس کے نرخوں میں یکلخت 36 فیصد اضافے کا فیصلہ کیا گیا ہے تو اس سے بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کو عمران خان کی اسلام آباد کو بند کرنیوالی ممکنہ تحریک سے بھی اپنے اقتدار کیلئے کسی قسم کا خوف لاحق نہیں۔
عوام کیلئے اس سے بڑی المناک اور کیا صورتحال ہوسکتی ہے کہ حکمرانوں نے پہلے ہی انہیں کسی قسم کا ریلیف دینے سے ہاتھ کھینچ رکھے ہیں اور ان پر غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے مزید پہاڑ توڑے جارہے ہیں جبکہ ان مسائل سے نجات کیلئے عمران خان اور دوسرے اپوزیشن لیڈران بھی انکی آواز سننے کو تیار نہیں جن کا ایجنڈا عوامی مسائل کا حل نہیں‘ محض حکومت کو گرانے کا ہے۔ عوام تو یقیناً اب بیدار ہیں اور وہ حکومت کے من مانے اقدامات کیخلاف سڑکوں پر آنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ اگر انہیں قیادت میسر نہیں آتی تو وہ بے ہنگم طریقے سے خود ہی احتجاج کے ایسے راستے اختیار کرلیں گے جو افراتفری اور خانہ جنگی کی راہ دکھائیں گے اور یہ صورتحال ملک اور عوام کیلئے انتہائی خطرناک ہوگی۔
اس تناظر میں اپوزیشن بالخصوص عمران خان کیلئے یہ نادر موقع ہے کہ وہ محض پانامہ لیکس پر انکوائری کی رٹ لگانے کے بجائے عوام کو درپیش غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری‘ توانائی کے بحران کو اپنی تحریک کیلئے زاد راہ بنائیں اور حکومتی پالیسیوں سے مایوس ہونیوالے عوام کو انکے اچھے مستقبل کی کرن دکھائیں۔ اگر عمران خان گیس اور دوسری اشیائے ضروریہ کے نرخوں میں شتربے مہار اضافے اور بجلی کی مزید بڑھتی لوڈشیڈنگ سے عوام کو نجات دلانے کا عہد لے کر عوام کے پاس آئیں تو انہیں پانامہ لیکس انکوائری کے تقاضے سے کہیں زیادہ عوامی پذیرائی حاصل ہوسکتی ہے۔ حکمرانوں کو بھی اس حوالے سے ہوش کے ناخن لینے چاہئیں کیونکہ عوام تو بہرصورت اپنے گھمبیر مسائل کی بنیاد پر ’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘ پر آمادہ نظر آتے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ حکمرانوں کی من مانیاں اور اپوزیشن کی نادانیاں ملک کو اس راہ پر لے جائیں جہاں ماورائے اقدام کے تحت جرنیلی شب خونی کے عزائم رکھنے والوں کو سسٹم کی بساط پھر سے لپیٹنے کا موقع مل سکتا ہو۔ اگر حکمرانوں کو اپنی من مانیوں سے آگے کچھ نظر نہیں آرہا تو کم از کم اپوزیشن ہی کو اپنی سیاست عوامی جذبات و توقعات سے ہم آہنگ کرلینی چاہیے۔ بصورت دیگر سسٹم کی بساط لپیٹے جانے کی ذمہ داری سب پر یکساں عائد ہوگی۔