ہمارے برادر عرب ممالک میں رائج بادشاہتوں اور شخصی حکمرانیوں کے بارے میں انٹرنیشنل میڈیا پر بالعموم منفی تاثر کا ہی اظہار کیا جاتا ہے اور بعض عرب حکمرانوں کے خلاف ماضی قریب میں اٹھنے والی عوامی تحریکوں کو اسی تناظر میں عالمی میڈیا پر پذیرائی ملی تھی جس کے پیچھے اصل ایجنڈہ مسلم ممالک میں انتشار کی فضا پیدا کرنے اور پھر اسے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے کا تھا، امریکہ اور ملحد قوتوں کے نمائندہ دوسرے مغربی ممالک کے حکمران اس میں کافی حد تک کامیاب بھی ہوئے اور مسلم ممالک میں اٹھنے والی تشدد کی لہر کو انہوں نے مجموعی طور پر دین اسلام پر دہشت گردی کا ملبہ ڈالنے کے لئے استعمال کیا۔ لادین قوتوں کے اس ایجنڈے کے تحت ہر مسلم ملک رگڑے میں آیا چاہے وہاں بادشاہت اور شخصی حکمرانی تھی یا پارلیمانی جمہوری نظام رائج تھا۔ اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ مسلم ممالک میں عوامی بیداری کی تحریکوں کی راہ ہموار کرنے اور ان کی سرپرستی کرنے کے مقاصد وہاں بادشاہتوں اور آمرتیوں کو اکھاڑنے کے لئے نہیں بلکہ مسلم ریاستوں کو انتشار کا شکار کرنے کیتھے۔ یہ مقاصد آج بھی موجود ہیں اور یہ ایجنڈہ آج بھی کارفرما ہے۔ سوچنے کی بات صرف مسلم حکمرانوں اور عوام کے لئے ہے کہ وہ اپنی تخریب کے ذریعے طاغوتی طاقتوں کے ایجنڈے کا خود کو کیوں چارہ بناتے ہیں۔ انہیں تو اپنی سہولت کے لئے کبھی ہماری جرنیلی آمریت بھا جاتی ہے اور کبھی وہ ہماری جمہوریت کی عملداری کے لئے فکرمند نظر آتے ہیں جبکہ اصل ایجنڈہ ہمارے پائوں مضبوط نہ ہونے دینے کا ہے۔ ہمارے کسی نظام میں خرابی ہے تو اس کی اصلاح یا تبدیلی کا خود ہم نے ہی تردد کرنا ہے۔ اس کے لئے کوئی دوسرا فکرمند نظر آئے گا تو اس کا مقصد ہماری خیر خواہی ہرگز نہیں ہو گا۔ اگر اس سادہ سی بات کو محسوس کرکے پلے باندھ لیا جائے تو مسلم دنیا کا باہمی اتحاد و اتفاق خود ہی روبہ عمل ہو جائے گا اور باہمی فروعی اختلافات سے دامن چھڑا کر ہم امتِ واحدہ کی لڑی میں پروئے جائیں گے۔
مجھے چند سال قبل متحدہ عرب امارات اور اب برادر سعودی عرب کے نظام حکومت و حیات کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا ہے تو مجھے قانون کی مکمل عملداری ہی ان برادر مسلم ممالک کی کامیابی کی بنیادی وجہ نظر آتی ہے۔ ان دونوں ممالک میں ٹریفک کا خودکار نظام ہر شہری کو ڈسپلن کا پابند بنا چکا ہے جہاں ٹریفک کے متعینہ کسی اصول کی خلاف ورزی پر ہمارے شیر جوانوں کی طرح کوئی شرطا کسی نذرانے کے عوض کوئی رعائت نہیں دیتا بلکہ مختلف مقامات پر نصب کیمروں کی آنکھ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کو پکڑتی ہے اور متعلقہ شخص کے گھر سزا کا پروانہ پہنچ جاتا ہے چنانچہ یہاں اپنی سرزمین پر ٹریفک قوانین کی عادتاً خلاف ورزی کے لئے لاابالی پن کا مظاہرہ کرنے والے ہمارے بھائی عرب ممالک میں ناک کی سیدھ پر چلتے نظر آتے ہیں اور اپنے بچائو کے لئے کوئی دھن دولت یا اثر و رسوخ ان کے کام نہیں آتا۔ جدہ میں قیام کے دوران امیر محمد خاں صاحب ہمیں اپنی گاڑی پر گھماتے پھراتے رہے جبکہ مدینہ منورہ میں جاوید اقبال بٹ نے یہ فریضہ ادا کیا اور گاڑی چلاتے ہوئے انہیں بھی بس اسی فکر میں مبتلا دیکھا کہیں غلطی سے بھی ٹریفک ڈسپلن کی کوئی خلاف ورزی نہ ہو جائے۔ وہاں تو محض اشارہ کاٹنے پر پانچ سو ریال کا جرمانہ بھگتنا پڑتا ہے۔ ایسی ہی سخت سزا متحدہ عرب امارات میں بھی ہے اور دوسری تیسری غلطی پر تو ڈرائیونگ لائسنس کی منسوخی اور ملک بدری تک کی نوبت آ جاتی ہے اس لئے ہمارے ’’عادی مجرمان‘‘ بھی عرب معاشرے میں سدھائے ہوئے جانور نظر آتے ہیں۔ پھر چوری، ڈکیتی، قتل اور زنا جیسے قبیح جرائم پر کسی مجرم پر حد نافذ ہوتی ہے اور ہمارے عدالتی نظام کے برعکس حد کی لاگو ہونے والی سزا پر بلاتاخیر عملدرآمد بھی ہو جاتا ہے تو اس سے پیدا ہونے والا خوف بھی دوسرے لوگوں کے لئے عبرت کی مثال بنا رہتا ہے اور وہ سرعام ایسے قبیح جرائم کے ارتکاب کی جرات نہیں کرتے۔ یہی قانون کی عملداری کی اصل روح ہے جو کسی انسانی معاشرے کو ڈسپلن اور توازن میں رکھتی ہے اگر کسی مسلم ملک میں جمہوریت کی عملداری ہو اور وہاں قانون کی عملداری کا تصور ہی ناپید ہو تو وہ جمہوریت وہاں کے بادشاہی نظام اور امارت کے مقابلہ میں کبھی اچھی گورننس فراہم نہیں کر پائے گی۔ ہم اس حوالے سے پاکستان اور سعودی عرب کی گورننس کا تقابلی جائزہ لے رہے تھے تو سعودی سسٹم بادشاہت کے باوجود معاشرے کی اصلاح و فلاح کا بہترین نظام نظر آیا۔ حبیب اللہ سلفی کا خیال تھا کہ یہ سب حدود اللہ کے نفاذ اور ان پر عملدرآمد کی برکت ہے جس سے دوسرے گناہ بھی دھل جاتے ہیں اور کسی ایک بھی حد کے نفاذ پر متعلقہ معاشرہ خدا کی رحمتوں، برکتوں سے مالا مال ہو جاتا ہے۔ ارے ہم تو آج بھی حدود اللہ کی سزائوں سے بچنے کے راستے ڈھونڈنے کے چکروں میں ہیں پھر خدا کی رحمت و برکت کے کیسے حقدار ٹھہر سکتے ہیں۔
فریضہ حج کی ادائیگی کے دوران سعودی معاشرے میں موجود نظم و ضبط اور وہاں کے مقامی باشندوں کے طرز حیات کے مشاہدے کا بھی موقع ملتا رہا اور بطور خاص مجھے مقامی باشندوں کی نوجوان نسل میں ہیجان و خلجان کی کیفیت نظر آئی جس کا بنیادی سبب ہر سعودی بچے، بچی کے ہاتھوں کا کھلونا بنے جدید موبائل فون ہیں، کیونکہ اس ٹیکنالوجی نے کسی انسانی معاشرے کے ڈسپلن کے لئے ضروری گردانی جانے والی پابندیوں کو غارت کر دیا ہوا ہے چنانچہ سعودیوں کی نئی نسل بھی انسانی معاشرت کے لوازمات والی پابندیوں سے بغاوت میں اتری نظر آتی ہے۔ جدہ میں امیر محمد خاں صاحب کے ساتھ رات کے وقت مختلف مقامات کا جائزہ لیتے ہوئے ہمیں شاپنگ سنٹرز، ہوٹلوں اور دوسری کمرشل بلڈنگز کے باہر اور عام گلیوں، چوراہوں، سڑکوں، بازاروں میں سعودی نوجوان لاابالی پن میں گھومتے پھرتے نظر آئے اور حیرت اس بات پر ہوئی کہ نوجوان لڑکیاں بھی رات کے وقت اسی طرح لاابالی پن میں موج مستیاں کر رہی تھیں۔ امیر محمد خاں صاحب نے یہ بتا کر میری حیرت میں مزید اضافہ کیا کہ یہاں کی نوجوان لڑکیوں کو شیشہ پینے کی لت بھی پڑ چکی ہے چنانچہ یہاں مخصوص مقامات پر کچھ کمرشل بلڈنگوں اور ہوٹلوں کی چھتوں پر بطور کاروبار شیشے کے کیفے کھول دئیے گئے ہیں جو رات کے وقت آباد ہوتے ہیں اور وہاں زیادہ تر نوجوان لڑکیاں ہی شیشہ پینے کا شوق پورا کرتی ہیں۔ ہم ایک کیفے میں بیٹھے کافی کی چسکیاں لے رہے تھے کہ دو نوجوانوں لڑکیوں نے ہماری ٹیبل کے پاس آ کر معنی خیز بلند آواز میں اور مخصوص انداز میں السلام علیکم کہا اور ایسے ہی مخصوص انداز میں کیفے سے باہر نکل گئیں۔ امیر محمد خاں کے بقول یہ تو سعودی نوجوان نسل کے ’’لچھنوں‘‘ کا صرف ایک رنگ ہے جبکہ سعودی نوجوانوں کے دوسرے رنگ مغربی معاشرے سے بھی آگے نکلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ مجھے اور بھی حیرت ہوئی کہ قانون کی عملداری کا شاہکار اس معاشرے میں نوجوان نسل کا ایسا طرز حیات کیسے گوارا اور قابل قبول ہو رہا ہے۔ یقیناً سعودی نوجوان نسل کے اس چلن پر سعودی منتظمین اور والدین کی بھی نظریں ہوں گی اس لئے نوجوان نسل میں در آنے والی یہ قباحت شائد برقرار نہ رہ سکے اور پھر سعودی معاشرے میں حدود اللہ کے باعث ڈسپلن قائم ہے تو اس کی برکت بھی عادتاً اختیار کئے جانے والے ایسے جرائم کا قلع قمع کر دے گی۔ خدا مجھے ہمت، توفیق اور استقامت دے تو اپنے سفر حج کو کتابی شکل میں لانے کا ارادہ ہے۔ آپ کی دعائیں شامل حال رہیں تو انشاء اللہ یہ معرکہ بھی طے ہو جائے گا۔
لبیک اللھم لبیک۔ (آخری قسط)
Oct 11, 2016