بات کافی بگڑ گئی ہے۔ نواز شریف نے عدلیہ اور کسی نادیدہ قوت کے خلاف جو محاذ آرائی شروع کر رکھی ہے اور جو جارحانہ رویہ اختیار کیا ہوا ہے۔ اُسکی گونج پورے ملک میں سنائی دے رہی ہے۔ اس محاذ آرائی پر تمام اپوزیشن جماعتیں خوش جبکہ شہباز شریف اور چودھری نثار سمیت بہت سے لیگی رہنما معترض دکھائی دیتے ہیں۔ نواز شریف کی سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، کچھ سجھائی نہیں دیتا۔
البتہ اس بات کی نوید مل رہی ہے کہ جب 2018ءکا الیکشن ہو گا، نواز شریف اس الیکشن پروسیس سے باہر ہوں گے لیکن اُنکی جماعت یعنی مسلم لیگ (ن) ضرور اس پروسیس کا حصّہ بنے گی۔ رزلٹ کیا آتا ہے اس کا انحصار تو ووٹرز کی دلچسپی پر ہے کہ اکثریت کس کے ساتھ جاتی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف ایک بڑی سیاسی قوت بن کر اُبھری ہے جو پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو ٹف ٹائم دےگی۔ تمام مذہبی جماعتیں بھی سیاسی پلیٹ فارم پر اکٹھی ہو رہی ہیں۔
مولانا فضل الرحمن اس کا عندیہ دے چکے ہیں اور اُنکے رابطے بھی شروع ہیں۔ تمام مذہبی جماعتوں کا محاذ بن گیا اور انہوں نے مل کر 2018کا الیکشن لڑا تو خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف کیلئے کافی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔
لگتا تو ایسا ہی ہے تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے ابھی سے الیکشن 2018ءکی تیاری شروع کر دی ہے۔ جلسے بھی ہو رہے ہیں اور ٹکٹوں کے حصول کیلئے متوقع امیدواروں نے کوششیں بھی شروع کر دی ہیں۔ پنجاب اس وقت پاکستان مسلم لیگ (ن) کا مضبوط گڑھ ہے جسے پاکستان تحریک انصاف اپنے ” منشور “ کی بنیاد پر چیلنج کر رہی ہے۔ اگرچہ غیر جانبدار مبصرین اور ناقدین کا خیال ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی اب 2013ءوالی پوزیشن نہیں رہی۔ بعض ”وجوہ“ کی بنیاد پر اسکی مقبولیت کا گراف نیچے آیا ہے لیکن اسکے باوجود کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کو ایک مضبوط سیاسی جماعت کی حیثیت حاصل ہے۔ اگرچہ اُس کا تنظیمی ڈھانچہ ن لیگ کے برعکس انتہائی کمزور ہے۔ اندرونِ خانہ بھی دھڑے بندی ہے۔ برداشت کا جذبہ مفقود ہے اس لئے پی ٹی آئی کو اس کا بڑا نقصان پہنچے گا۔نواز شریف اگرچہ حالیہ انتخابات بل 2017ءمیں ترمیم کے بعد پارٹی صدر بن گئے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ آنیوالے انتخابات میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔ تاہم وہ پارٹی صدر کی حیثیت سے اپنا ایک فعال کردار ادا کر سکتے ہیں۔
اس وقت ملک میں جس سیاسی اور قانونی جنگ کا چرچا ہے وہ کس کو کہاں لے جائیگی، ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ عمران خان اور جہانگیر ترین کی نااہلی کے حوالے سے تین کیس سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان میں زیر سماعت ہیں یہ کس طرف جاتے ہیں اور ان کا کیا فیصلہ آتا ہے، کچھ بھی کہنا مشکل ہے۔ عمران خان اور جہانگیر ترین کا ان نا اہلی کیسوں سے بچنے کا صرف ففٹی پرسنٹ چانس ہے۔ اگریہ ”چانس“ نہیں رہتا تو پھر کیا ہو گا؟ نتیجہ آپ خود اخذ کر سکتے ہیں۔الزامات اور گالم گلوچ کی سیاست ان دنوں عروج پر ہے۔ کسی کو کسی کا لحاظ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیاست میں بہت ”گند“ مچ گیا ہے یہ ”گند“ کیسے صاف ہو گا۔ بھلا کوئی کیا جانے....!
لیکن ایک بات طے ہے کہ سیاست میں ہم نے گزشتہ چند برسوں میں جو کچھ ہوتے دیکھا ہے۔ اُس پر دل کانپتا ہے اور ”پناہ“ ہی مانگی جا سکتی ہے۔سیاست اچھی ہو تو ریاست بھی بہترین چلتی ہے لیکن سیاست میں ناجائز کمزور ذرائع سے دولت کمانے کے ”ٹرینڈ“ نے سیاست کا ستیاناس کر دیا ہے۔ احتساب کا جو عمل ملک میں شروع ہو چکا ہے۔ اُس پر پوری قوم نے ”لبیک“ کہا ہے یہ ہر پاکستانی کے دل کی آواز ہے کہ ناجائز دولت کمانے والوں کو ضرور پکڑنا چاہیے۔ اچھا ہوا کہ نواز شریف فیملی سے یہ عمل شروع ہوا ہے۔ لیکن یہ تاثر بھی نہیں پیدا ہونا چاہیے کہ صرف ایک بڑے شخص یا ایک بڑی فیملی کا احتساب ہو رہا ہے۔
پاناما پیپرز میں اور بھی بڑے نام سامنے آئے تھے۔ جن میں اعلیٰ عدلیہ کے ایک جج سمیت بہت سے بیوروکریٹ، سیاستدان اور بڑے صنعت کار شامل تھے، لیکن ”احتساب“ کو صرف نواز شریف ہی تک محدود کر دیا گیا، جس سے تاثر پیدا ہوا کہ شاید کوئی ”انہونی قوت“ سیاست میں نواز شریف فیملی کا راستہ روکنا چاہتی ہے۔
اگرچہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل کی حالیہ میڈیا بریفنگ کے دوران یہ عقدہ کھلا کہ ”اسٹیبلشمنٹ“ سیاست کے کسی پارٹ کا حصہ نہیں۔ فوج کی جانب سے یہ پیغام واضح اور دوٹوک تھا لیکن متاثرہ فریق کے سامنے پھر بھی اندیشے اور خدشے موجود ہیں، ”انصاف“ میں خدشات اور تمام تر سوالات کو ختم کر دیا جائے تو پھر یہی محسوس ہوتا ہے کہ انصاف ہو رہا ہے یا انصاف ہوا ہے۔
ہماری عدلیہ کی تاریخ بھی کوئی اتنی اچھی نہیں کہ لوگ خاموشی سے اُس پر ایمان لے آئیں۔ اگربھٹو کیس کو ہی لے لیں تو خود جسٹس نسیم حسن شاہ کی زبانی یہ قصّہ بہت مشہور ہے جس میں انہوں نے یہ اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے دباﺅ میں آ کر بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ کیا۔ ایسے کئی ”فیصلوں“ کی فہرست سامنے آئے تو میرا خیال ہے مناسب نہیں ہو گا۔ عدلیہ پر کئی سوال اٹھیں گے۔ویسے بھی سیاستدانوں نے اپنے ہر ”معاملے“ کو عدلیہ میں لے جا کر کچھ اچھا نہیں کیا۔ عدلیہ کو سیاست میں گھسیٹنا کوئی اچھا شگون نہیں۔ عدلیہ ہی وہ واحد ادارہ ہے جہاں لوگ ”انصاف“ کی امید پر جاتے ہیں اس کو متنازع بنا دیا جائے تو کون اس پر اعتماد کرے گا۔
احتساب ہونا چاہیے؟ اور بلا تفریق سب کا ہونا چاہیے۔ اچھا ہوا وقت کے پرائم منسٹر سے اس کا آغاز ہوا ۔ اب یہ سلسلہ اور آگے بڑھنا چاہیے۔ احتساب کا عمل صاف شفاف اور مضبوط ہو گا تو سب کو یقین ہو گا کہ کوئی اس سے نہیں بچ سکتا۔ وہ چاہے کتنا ہی بڑا اور مضبوط کیوں نہ ہو۔ احتساب اور انصاف کا نظام چلے گا تو ریاست مضبوط ہو گئی اور سیاست میں بھی شفافیت آئے گی۔ ایک کریڈٹ پاکستان تحریک انصاف خصوصاً عمران خان کو ضرور دوں گا کہ اُن کی بڑی کوششوں سے احتساب کا عمل شروع ہوا لیکن یہ احتساب کسی کے لیے ”انتقام“ نہیں بننا چاہیے۔