ہماری کرکٹ کی روایت ایسی ہے کہ آج بھی ٹیم پاکستان ناقابل یقین سمجھی جاتی ہے۔ چلو اچھا ہے اس بہانے ہر کامیابی اور بہت سی ناکامیوں کا ایک معقول جواز ہمیشہ موجود رہتا ہے کہ ہماری ٹیم ہی ایسی ہے کہ یہ کچھ بھی کر سکتی ہے۔ یہی چیمپئنز ٹرافی میں ہوا۔ کچھ ہوا اور اس کچھ ہونے سے بہت کچھ ہونا رہ گیا۔ اگر ناقابل یقین کا ٹائٹل ٹیم کی حد تک رہے تو ٹھیک ہے لیکن کرکٹ بورڈ کے انتظامی معاملات میں ناقابل یقین یا کچھ بھی ہو جانے کا مضبوط تاثر یقینا غلط ہے۔ بد قسمتی سے یہ تاثر وقت کے ساتھ ساتھ مضبوط ہو رہا ہے اور اسکے مضبوط ہونے سے نقصان کا اندیشہ بھی بڑھ رہا ہے۔ کرکٹ بورڈ کے ارباب اختیار ایسے فیصلے کرتے ہیں کہ سر پیٹنے کو دل کرتا ہے چونکہ سر اپنا ہے فیصلے کرنیوالوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا تو ہم بھی سر پیٹنے کے بجائے قہقہہ لگا کر غم غلط کرتے ہیں۔ ویسے بھی اب ہم عجیب فیصلوں کے عادی ہو چکے ہیں اب دیکھیں وویمن کرکٹ ٹیم کی عالمی کپ میں بدترین کارکردگی کے بعد جو اکھاڑ پچھاڑ ہوئی ہے وہ عجب فیصلوں میں ایک شاہکار کے طور پر یاد رکھی جائے گی۔ ایک ایسی شخصیت جو بحثیت مینجر ناکام ثابت ہوئیں۔ قومی ٹیم کی ناکامیوں میں انکا بھی حصہ رہا لیکن تاریخی ناکامیوں کے اعزاز میں انہیں مینجر سے ہٹا کر اس سے اہم عہدے پر بٹھا دیا گیا۔ اگر وہ بحثیت مینجر ایک ٹیم کو سنبھالنے میں ناکام تھیں تو ملک بھر کی کرکٹ کو کیسے سنبھالیں گی۔ اس فیصلے سے فیصلہ سازوں کی مشاورت، دلچسپی اور میرٹ کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔
ویسے تو ویمن ونگ میں جتنی سازشوں کا ہم ذکر سنتے ہیں محسوس ہوتا ہے کہ اس شعبے میں سازشوں کا عالمی ریکارڈ بن چکا ہے ویمن ونگ میں ہونیوالی تبدیلیاں بھی کسی سازش کا ہی نتیجہ معلوم ہوتی ہیں۔ ان تبدیلیوں کے نتیجے میں ٹیسٹ کرکٹر محمد الیاس ایک مرتبہ پھر چیف سلیکٹر کے عہدے پر فائز ہو گئے ہیں دیکھنا یہ ہے کہ انکا یہ عہدہ کب تک برقرار رہتا ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ بحالی کے لیے انہیں ایک مرتبہ پھر عدالت سے رجوع کرنا پڑے ویسے جس دن انکی برطرفی کی پریس ریلیز جاری ہوئی اس سے اگلے دن ایک خبر نظر سے گذری تھی جس کے مطابق سلیکشن کمیٹی نے چند نئے چہرے بھی متعارف کروائے لیکن پھر بھی انہیں پرانے چہروں کے ساتھ رخصت کر دیا گیا۔ شمسہ ہاشمی کے حالیہ بیانات پر بھی بورڈ کو سنجیدگی سے غور کرنا ہو گا۔ ویسے یہ بات اپنی جگہ معمہ ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے ایک شخص کو ناکام قرار دیکر عہدے سے برطرف کیا بعد ازاں اسے بیک وقت کئی ذمہ داریاں دے دیں۔ دونوں میں سے ایک فیصلہ تو غلط ہے یا پہلے ہٹانے کا یا بعد میں نئی ذمہ داریاں دینے کا اسکی وضاحت تو بورڈ ہی کر سکتا ہے۔
دوسری طرف پاکستان سپر لیگ کی ایک فرنچائز کیطرف سے ہونیوالا ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام ختم ہوا ہے اس دوران جس شدت کے ساتھ نئے ٹیلنٹ کی گردان اور کریڈٹ کی کوشش کی گئی خدشہ ہے چند دنوں میں وہ فرنچائز انتظامیہ نجم سیٹھی کی دریافت اور انہیں اپنا ٹیلنٹ قرار دینے کا دعوی نہ کر دے۔ کرکٹ کی سرگرمیاں بہرحال خوش آئند ہیں پاکستان سپر لیگ کی ٹیمیں مختلف علاقوں میں نوجوانوں کو کھیل کے مواقع فراہم کر رہی ہیں کھیل سے ہٹ کر دیگر شعبوں میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کو اپنے زیر انتظام کرکٹ گراونڈز کسی بھی فرنچائز کو دیتے ہوئے یہ خیال ضرور رکھنا چاہیے کہ میدان کا نقصان نہیں ہو گا۔ صفائی کا خیال رکھا جائیگا حال ہی میں ہونیوالے ایونٹ کے اختتام کے اگلے روز قذافی سٹیڈیم میں گندگی کے ڈھیر تھے۔ ساتھی رپورٹر ابراہیم بادیس نے وہ گراونڈ کے مناظر سوشل میڈیا کے سپرد کیے ہیں امید ہے کرکٹ بورڈ اسطرف غور کریگا۔
اب انضمام الحق کی سلیکشن کمیٹی کا ذکر ہو۔ اپنے بھتیجے امام الحق کو منتخب کرنے پر تنقید کا سامنا کرنیوالے چیف سلیکٹر کا کہنا ہے کہ لازم نہیں کہ زیادہ رنز کرنے والوں کو سلیکٹ کر لیا جائے۔ امام الحق ایک باصلاحیت کھلاڑی ہیں وہ انڈر 19 ٹیم میں اس وقت کھیلے جب انضمام الحق کا سلیکشن سے دور دور کا بھی تعلق نہیں تھا۔ پھر امام الحق کو کھلانے میں جلد بازی کیوں کی گئی، کہیں ایسا تو نہیں کہ انضمام الحق سلیکشن کمیٹی سے الگ ہونے اور یہ عہدہ چھوڑنے کے بارے سوچ رہے ہیں؟؟؟
اس سلیکشن سے ہٹ کر دیکھا جائے تو ماہرین کو بعض اور فیصلوں پر بھی شدید تحفظات ہیں۔ سہیل خان،افتخار احمد، عماد بٹ، عمر اکمل، کامران اکمل، فواد عالم، محمد حفیظ، شان مسعود سمیت دیگر کئی کھلاڑی جنہیں ہونا چاہیے تھا یا نہیں ہونا چاہیے تھا وہ اس سلیکشن کمیٹی کے کریڈٹ پر ہیں۔ اس موضوع پر دوبارہ بات ہوگی۔