قبرستان کی اراضی کسی عوامی منصوبے کیلئے استعمال نہیں ہو سکتی: ہائیکورٹ

Oct 11, 2017

لاہور (وقائع نگار خصوصی) لاہور ہائیکورٹ نے میانی صاحب قبرستان کی اراضی پر غیر قانونی قابضین کو وکیل کی خدمات حاصل کرنے کے لئے مہلت دیتے ہوئے کہا کہ قانون کے تحت قبرستان کی مختص اراضی مفاد عامہ کے کسی منصوبے کے لئے بھی استعمال میں نہیں لائی جا سکتی۔ جسٹس علی اکبر قریشی نے سماعت کی۔ عدالتی حکم پر غیر قانونی قابضین عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ انہوں نے رقم دے کر زمین خریدی ان کے پاس اس اراضی کے مالکانہ حقوق بھی موجود ہیں۔ عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر ملکیت ثابت نہ ہو سکی تو عدالت فوری قبضہ واگزار کرائے گی۔ عدالت نے قابضین کو چار یوم میں وکیل کی خدمات حاصل کرنے کا موقع فراہم کر دیا۔ ڈپٹی کمشنر سمیر سید نے عدالت کو بتایا کہ میانی صاحب جنازگاہ کی ایک مرلہ سے زائد اراضی عوامی مفاد کے تحت ٹیوب ویل کی تنصیب کے لئے حاصل کی گئی۔ اس عوامی منصوبے کے تحت تیرہ ہزار گھروں اور قبرستان کو پانی کی فراہمی ممکن ہو سکے گی۔ جس پر عدالت نے کہا قبرستان کی اراضی کس قانون کے تحت مفاد عامہ کے منصوبے کے نام پر حاصل کی گئی۔ اگر عدالت مطمئن نہ ہوئی تو ٹیوب ویل کو اکھاڑنے کا حکم دیا جائے گا۔ اگر یہ اجازت دے دی گئی تو کل کو مفاد عامہ کے نام پر حکومت قبرستان پر سڑکیں بنا کر عمارتیں کھڑی کر دے گی۔ عدالت نے قبرستان میں جنازگاہ اور میتوں کو نہلانے کے لئے غسل خانوں کی تعمیر سے متعلق ڈپٹی کمشنر لاہور کو موقع پر جا کر ترقیاتی کاموں کا معائنہ کرنے اور رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے گورکنوں کو سوشل سکیورٹی کارڈ جاری کرنے، قبرستان کے تمام داخلی راستوں پر دروازے لگانے کا حکم بھی دیدیا۔ عدالت نے پھول فروشوں کے ٹھیکوں سے ہونے والی آمدن کا ریکارڈ بھی طلب کر لیا۔ عدالت نے ریمارکس دیتے کہا کہ عدالت کے علم میں یہ بات آئی ہے کہ گورکنوں کی تعیناتیوں کے لئے پچاس ہزار روپے تک رشوت لی جاتی تھی۔ قبرستان کی دیکھ بھال کرنے والے گورکنوں کو تنخواہیں کیوں ادا نہیں کی جاتیں اس حوالے سے عدالت کو ٹھوس وجوہات بتائی جائیں۔

مزیدخبریں