میں جب عمر ایوب کی تصویر ایک وزیر کے طور پر دیکھتا ہوں تو مجھے صدر ایوب خان یاد آ جاتاہے۔ نجانے کیا بات ہے کہ پہلے اور بڑے آمر کے بیٹے ہیں آخر عمرایوب میں کیا کچھ ہے کہ ہر ’’جمہوری‘‘ حکومت نے انہیں نوازا یا ان سے کوئی مدد لی۔ صدر ایوب خان آ مر تھا مگر جو بھی کچھ ترقیاتی کام ہو گئے۔ وہ صدر ایوب کے دور میں ہوئے۔ اب تو ڈیم بھی چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار بنانے نکلے ہوئے ہیں ہیں۔ عمران خان نے بس ان کا ساتھ زبانی کلامی دیا ہے۔ چیف جسٹس ا ور وزیراعظم نے اس بڑے منصوبے کے لئے چند ے جمع کرنے کا سہارا لیا ہے اور کئی مخالفین کی آوازیں آنا شروع ہوئی ہیں کہ کبھی چند سے بھی ڈیم بنتے ہیں۔ عمران خاں نے بڑے بڑے کام چندے سے کئے ہیں۔
صدر جنرل ضیاء الحق کی وراثتی حکومت تو نواز شرف نے قابو کر لی اور برادرم اعجاز الحق دیکھتے رہ گئے۔ ان کے پاس اب کچھ نہیں ہے جو کچھ انہیںملا وہ نواز شریف کی وساطت سے ملا۔ برادرم اکرم چودھری دوستی کے جذبے میں کوئی تقریب بھی اعجازالحق کے اعزاز میں گھر پر کر لیتے ہیں اور ہم کچھ دوست اکرم صاحب کے گھر سے ہو آتے ہیں۔ وہ اب سول سیکرٹریٹ کے ہو گئے ہیں۔ اب اعجازالحق آئیں گے تو کہاں جائیں گے۔ میں اپنے کوارٹر 6 ۔ ڈی وحدت کالونی میں ان کے لئے دوستوں کو اکٹھا کروں گا۔ برادرم اکرم چودھری کو بھی بلائوں گا۔ اگر انہوں نے آنا پسند کیا تو؟
ایک جمہوری جذبہ رکھتے ہوئے بھی میں صدر جنرل ضیاء الحق کو پسند کرتا ہوں۔ وہ اگر زندہ رہتے تو پاکستان کے لئے کچھ کرتے۔ اس کے علاوہ بھی ایک دو نام میرے ذہن میں ہیں جو مغربی دنیا کے لئے وقار اور اعتبار کا باعث ہوئے صدر کینڈی اور ہیلری کلنٹن مگر اسے امریکیوں نے ہروا دیا۔ قائد ملت لیاقت علی خان، مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح اور بھٹو۔ کیوں ایسا ہوتا ہے کہ پاکستان کے لئے کوئی بہتر قابل اور اہل آدمی کو زندہ نہیں رہنے دیا جاتا۔ اللہ عمران خان کی حفاظت کرے۔ عالم اسلام میں شاہ فیصل کو مروا دیا گیا۔ جمال عبدالناصر، کرنل قذافی اور؟ میں کربلا میں روضۂ حسینؓ کے سامنے کھڑا تھا تو مجھے صدام حسین یاد آیا۔ اسے بھی عالمی طاقتوں نے نہ چھوڑا۔ عراق اجڑا جڑا سا لگا، نجف اشرف۔ یاسرعرفات کا کیا ہوا۔ اسے بھی رسوا کیا گیا۔ اب معاذ اللہ فلسطین فلسطینی لیڈر کے بغیر ہے۔ اب شاید لیڈروں کا زمانہ نہیںہے۔ اس میں کیا راز ہے کہ لیڈر آجکل صرف مشرقی دنیا میں پیدا ہوتے ہیں اور مروا دئیے جاتے ہیں۔
ابراہیم لنکن، چرچل اور ہٹلر وغیرہ کے بعد مجھے معلوم نہیں کہ کوئی لیڈر مغربی دنیا میں پیدا ہوا ہے اور فطری موت مرا ہو۔مشرق میں بھی لیڈروں کے لئے فطری موت ایک معجزہ ہے ۔
ایک بہت اچھی اور زبردست خاتون مسز گیلانی مجھے ملتان سے لمبے لمبے خط لکھتی ہیں ۔ اسلامی روایات اور اچھے جذبات سے مزین خطوط پڑھنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں ۔ کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ میں ان سے کئی باتوں کی وضاحت چاہتا ہوں ۔ کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ جن کے لئے میں ان سے بات کرنا چاہتا ہوں ۔ وہ میرے لئے بہت محترم ہیں مگر میرے لئے کوئی راستہ نہیں عجب المیہ ہے کہ ہمیں منزل معلوم ہے مگر راستہ بھول گیا ہے میں بھی سوچتا ہوں کہ بہت محترم مسز گیلانی اتنے لمبے لمبے خطوط اتنے تواتر سے کیسے لکھ لیتی ہیں ۔ تجسس اتنا گہرا ہوتا جاتا ہے کہ میرے لئے تردد بنتا جا رہا ہے ۔ کسی دن ان کے خطوط میں سے کچھ باتیں لکھوں گا کہ میرے قارئین بھی پریشان ہوں اور حیران بھی ہوں ۔
نوائے وقت کی ہماری کولیگ فرزانہ چوہدری کے گھر میں گھس کر شر پسندوں نے حملہ کیا وہاں فرزانہ کے بیٹوں کو زدو کوب کیا مجھے لگا ہے یہ حملہ میرے گھر پر ہوا ہو یہ بہت زیادتی ہے اس حوالے سے برادرم اکرم چوہدری مشیر پنجاب حکومت کو نوٹس لینا چاہیے۔
اکرم چودھری کے بہت اچھے کالم نوائے وقت کے نیوز پیج پر شائع ہوتے ہیں۔ سرکاری مصروفیات کے باوجود وہ روزانہ کالم لکھتے ہیں۔ یہ ایک بڑی بات ہے فیصل رضا عابدی پھر خبروں میں آئے ہیں اور اسی طرح آئے ہیں جس طرح پہلے آیا کرتے تھے۔ ان کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ عدالت نے ان کا معافی نامہ مسترد کر دیا گیا ہے۔ وہ زرداری صاحب سے بہت قریب تھے۔ آج کل صورتحال کیا ہے۔ مجھے معلوم نہیں کراچی میں بڑے سرکاری افسروں کے بیٹے ملزم نکلے۔ جب وہ پکڑے جاتے ہیں۔ ان کے والد انہیں چھڑوا لیتے تھے یہ اس دور میں نہیں خاص طور پر ہو رہا ہوگا مگر یہ ہمیشہ سے پاکستان میں ہوتا آ رہا ہے۔ بڑے افسروں کے بیٹے اکثر اوقات نالائق ہوتے ہیں۔وہ پڑھتے نہیں، نجانے وہ پاس کیسے ہو پاتے ہیں بس’’پاس‘‘ ہو جاتے ہیں؟ قانونی کارروائی صرف عام لوگوں کے بیٹوں کے خلاف ہوتی ہے۔ اب تووہ بھی کم کم ہوتی ہے۔ سب کے خلاف برابر کی کارروائی ہونی چاہئے۔ کراچی کے آج کل ان ’’بچوں‘‘ کی مجرمانہ جو لانگاہ بنی ہوئی ہے۔
اللہ عمران خان کی حفاظت کرے
Oct 11, 2018