شملہ معاہدہ اور کشمیر

Oct 11, 2020

2جولائی 1972کو ہونے والا شملہ معاہدہ دراصل دسمبر1971میں ہونے والی پاک بھارت جنگ کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو بہتر کرنے کے لیے کیا گیا تھا ۔1971میںبھارت نے مشرقی پاکستان میں مسلح تنظیم ـ"مکتی یا نہی "کھڑی کی ۔اس کو گوریلا ٹریننگ دی اور اور اسلحہ فراہم کر کے مشرقی پاکستان میں پاکستانی افواج اور محب وطن عناصر پر حملے کروائے ۔جب حالات زیادہ خراب ہوئے تو بھارتی فوج براہ راست مشرقی پاکستان پر حملہ آورہوئی اور اسی طرح بنگلا دیش کا قیام عمل میں آیا ۔ہندوستان کے مشرقی پاکستان کے حملہ کے بارے میں امریکی صدرنکسن نے اپنی سرگشت میں ہندوستانی وزیراعظم اندراگاندھی کے مطعلق دلچسپ باتیں لکھی ہیں ۔وہ لکھتے ہیں کہ اندرا گاندھی وہ واحد بین الااقوامی لیڈر ہیں جنہوں نے وائیٹ ہائوس میں میرے سامنے بیٹھ کر مجھ سے جھوٹ بولا ۔وہ لکھتے ہیں کہ 1971کی جنگ سے پہلے اندراگاندھی امریکہ کے دورے پر آئیں تو میں نے ان سے مشرقی پاکستان میں بھارت کے عزائم کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ہمارا مشرقی پاکستان پر حملہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے ۔صدر نکسن لکھتے ہیں جب وہ مجھ سے یہ بات کہہ رہی تھیں تو اس وقت میرے پاس مکمل معلومات موجود تھیں ۔کہ بھارت نے مشرقی پاکستان کے بارڈر پر کہاں کہاں فوج لگا رکھی ہے اور کب ان کاارادہ حملہ کرنے کا ہے ۔
مشرقی پاکستان میں پاکستان کی فوجی تیاریاں کمزور تھیں اور بھارت کے اوپر سے ہوائی سفر پر پابندی کی وجہ سے پاکستان بروقت کمک بھی نہ پہنچا سکا ۔ان حالات میں بھارتی حملوں میں پاکستان کی پوزیشن کمزور پڑی تو پاکستان نے مغربی پاکستان سے جنگ کا آغا ز کر دیا پاکستان نے 1965کی طرح جھمب جوڑیاں سیکٹر میں حملہ کر کے مقبوضہ کشمیر کوہندوستان سے کاٹنے کی کوشش کی۔جھمب پر قبضہ ہو گیا لیکن مزید آگے نہ جا سکے بھارت نے سیز فائر لائن پر مختلف جگہوں پر حملہ کر کے آزاد کشمیر کے کچھ سرحدی علاقوں پر قبضہ کر لیا جنگ بندی کے وقت اجھستا ن اور سیالکوٹ سیکٹر میں بھی بھارتی فوج نے کچھ سرحدی علاقوں پر قبضہ کر رکھا تھا ۔17ستمبر کی جنگ بندی کے وقت مشرقی پاکستان ہمارے ہاتھ سے نکل چکا تھا اور 93ہزار فوجی اور سویلین جنگی قیدی بن گئے تھے شملہ میں پاکستان کے صدر ذوالفقار بھٹو اور ہندوستان کے وزیراعظم کے درمیان بات چیت شروع ہوتے وقت یہ حالات تھے یعنی پاکستان کی پوزیشن بہت کمزور اور بھارتی پوزیشن مضبوط تھی ۔بھارت کی کوشش تھی کہ پاکستان کو دبا کر پوری ریاست جموں کشمیر کو بھارت کا حصہ تسلیم کر وا لے یا کم سے کم یہ معاہد ہ ہو جائے کہ بھارتی مقبوضہ کشمیر بھارت کا حصہ اٹوٹ انگ ہے ۔پاکستان کا بڑا مسئلہ 93ہزار جنگی فوجیوں کی واپسی اور ہندوستان کے قبضے میں آنے والے علاقے کو حالی کروانا تھا ۔28جون سے 2جولائی 1972تک مذاکرات کے متعدد دور ہوئے ۔دونوں وفد نے نہ صرف اہداف حاصل کرنے کی کوشش کی بلکہ معاہدے کے الفاظ اور شقوں کا چنائو اس طرح کیا کہ بعد میں بات چیت میں اور بین الااقوامی مذاکرت میں اپنی مرضی کے معنی پہنائے جا سکیں ۔معاہدے میں ہونے والے بڑے بڑے نکات کچھ یوں تھے کہ دونوں ممالک باہمی تنازعات پرامن طور پر دو طرفہ مذاکرات اور دوسرے طریقو ں سے جن پر دونوں ممالک راضی ہوں حل کریں گے دونوں ممالک اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں اور مقاصد کے مطابق پرامن طور پر مسائل حل کریں گے ۔دونوں ممالک کی افواج معاہدے 30دن کے اندربین الااقوامی سرحد پر واپس چلی جائیں گی ۔کشمیر میں جنگ بندی کے وقت فوجیں جہاں پر ہیں وہ اب لائین آف کنٹرول کہلائے گی اور فوجیں وہیں پر رہیںگی دونوں ممالک کی حکومت کے سربراہ مسائل کے حل کے لیے دوبارہ مذاکرات کریں گے اور اس سے پہلے دونوں ممالک کے وفود مذاکرات کے ذریعے جنگی قیدیوں کی واپسی کا طریقہ کار کو طے کریں گے اور مسئلہ کشمیر کے مستقل حل کے لیے تجاویز پیش کریں گے ۔پاکستان کو معاہدے کا فائدہ یہ ہوا کہ بھارت کے قبضے میں جانے والے علاقے فوراََ واپس مل گئے اور جنگی قیدیوں کی بھی بتدریج واپسی ہو گئی۔بھارت نے معاہدے کے الفاظ دو طرفہ مذاکرات کاخوب فائدہ اٹھایااور اٹھاتا رہا ہے بھارت کا کہنا ہے کہ معاہدے کے تحت پاکستان نے تسلیم کیا ہے کہ مسئلہ کشمیر پر صرف دو طرفہ مذاکرات ہو سکتے ہیں یہاں تک کہ وہ اقوام متحدہ میں بھی اس معاملے کو اٹھانے پر راضی نہیں ہوتا حالانکہ معاہدے میں صاف لکھا ہے کہ تنازعات دو طرفہ مذاکرات سے حل کریں گے یا دوسرے طریقوں سے جن پر دونوں فریق راضی ہوں اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ تیسرے فریق، ثالثی یا اقوام متحدہ میں جانے کی گنجائش موجود ہے لیکن اس لیے بھارت کا راضی ہو نا ضروری ہے ۔
معاہدے میں کشمیر کا ذکردو مرتبہ ہے ۔پہلی مرتبہ شق نمبر 5میں لکھا ہے کہ فوجیں لائین آف کنٹرول پر فائز رہیں گی اور اس کی خلاف ورزی نہ کریں گی ۔دوسری مرتبہ شق نمبر7میں کہ گیا دونوں ملکوں کے وفود مسئلہ کشمیر کا مستقل حل نکالنے کے لیے ترامیم پر غور کریں گی ۔ان دونوں شقوں کی مندرجات سے ہندوستان کے اٹوٹ انگ والے موقف کی نفی ہوتی ہے اور ظاہر ہوتا ہے معاہد ہ میں ہندوستان نے کشمیر کو متنازعہ علاقہ تسلیم کیا ۔بھارت میں اندراگاندھی کے مخالفین نے معاہدہ پر سخت تنقید کی ان کا کہنا تھا کہ ہندوستان کا پاکستان کے کچھ علاقوں پر قبضہ تھا اور 93ہزار جنگی قیدی تھے لیکن اندراگاندھی پاکستان سے کچھ بھی نہ منوا سکیں۔اس معاملے پر ہندوستان کے ایک سفارت کار ساشنکا ایس بیزجی جو اس وقت لندن میں تعینات تھے نے 2017میں انکشاف کیا ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ وہ خود اس معاملے میں شامل تھے ۔ان کا کہنا ہے شیخ مجیب الرحمن اس وقت پاکستان کی قید میں تھے اندراگاندھی کی یہ سب سے بڑی پریشانی تھی۔وہ چاہتی تھی کہ ان کو آزاد کیا جائے اور وہ بنگلا دیش کو جائیں کیونکہ ان کے بغیر بنگلا دیش کے حالات کو نارمل کرنا مشکل تھا سفارت کار نے لکھا کہ مشرقی پاکستان کے چیف سیکرٹری مظفر حسین دہلی میں قید تھے ااور ان کی بیگم لیلہ حسین لندن میں تھی ۔بھٹو صاحب امریکہ میں اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے بعد پاکستان جا رہے تھے جہاں ان کو صدر پاکستان کا عہدہ سنبھا لنا تھا ۔لندن میں بیگم لیلہ حسین کو بیک ڈورڈپلومیسی کے لیے راضی کیا گیا اور بھٹو صاحب واپسی پر جب لندن کے ہیتھرو ائر پورٹ اترے تو بیگم لیلہ حسین سے ملاقات کروائی گئی ۔

مزیدخبریں