تجزیہ :محمد اکرم چودھری
امت مسلمہ کے محسن، اسلام کے سپاہی، وطن عزیز کی سرحدوں کو محفوظ اور پاکستان کے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنانے والے ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا انتقال قومی سانحہ ہے۔ وہ جب تک زندہ رہے ملک و قوم کی خدمت کرتے وہ فلاحی کاموں کے ذریعے بھی اپنی ذمہ داری نبھاتے رہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے انتقال سے ہم ایک محب وطن اور اعلیٰ پائے کی شخصیت سے محروم ہوئے ہیں۔ ہم ڈاکٹر اے کیو خان کو ان کا جائز مقام دینے میں ناکام رہے ہیں۔ صرف پاکستان ہی نہیں عالم اسلام ان کی خدمات کا معترف ہے۔ وہ پاکستان ہی نہیں دیگر اسلامی ممالک میں بھی یکساں مقبول تھے۔ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے میں جہاں دیگر شخصیات کا اہم کردار ہے وہیں ڈاکٹر اے کیو خان کی خدمات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر ان کے اثرات بہت گہرے ہیں۔ وہ ملک و قوم کی خدمت کرتے رہے لیکن انہیں گذشتہ اکیس برس کے دوران قومی خدمت کے صلے میں ہر قسم کے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان حقیقی معنوں میں "سونا" تھے جسے حکمرانوں کی بیحسی نے بے وقعت کرنے کی کوشش کی اور گذشتہ روز اس سونے کو سپردخاک کیا گیا ہے۔ ہم نے ڈاکٹر اے کیو خان کے ساتھ جو سلوک کیا ہے اس کے بعد ہم نئی نسل سے یہ توقع نہیں کر سکتے کہ وہ ڈاکٹر اے کیو خان کو رول ماڈل سمجھتے ہوئے اس شعبے میں ملک و قوم کی خدمت کا سوچے گی۔ آخری دنوں میں جو خط انہوں نے وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو لکھا وہ بے بسی کی منہ بولتی تصویر ہے۔ ہم اپنے محسنوں کو یاد رکھنے‘ ان کی خدمات کا اعتراف کرنے کے بجائے انہیں احساس دلاتے ہیں کہ انہیں اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے کی ضرورت نہیں تھی۔ درحقیقت ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنی ذمہ داری نبھائی، فرض ادا کیا لیکن ہم فرض کی ادائیگی اور ذمہ داری نبھانے میں ناکام رہے۔ وہ قومی ہیرو تھے، ملکی دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنانے کے لیے ان کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔