صحت ، تعلیم اور خوراک عوام کی بنیادی ضرورتیں ہیں۔ترقی یافتہ معاشروں میں ان کی فراہمی حکومتوں کے ذمہ داری ہے‘ لیکن ملک عزیزمیں حکومت کے ساتھ ذمہ داریاں ادا کرنے میںفلاحی تنظیمیں، نیک سیرت مخیرحضرات اور حقیقی خانقاہی نظام متحرک نظر آتا ہے۔ اس کی تصدیق جرمنی کے ایک دانشور لینس سٹروتھمین نے اپنے ایک تحقیقی مقالہ میں کی۔ مقالہ نگار لکھتا ہے کہ’’ ایک ایسا معاشرہ جہاں آبادی کا ایک بڑاحصہ بنیادی ضرورتوں سے محروم ہے وہاں خدمت خلق کے یہمراکزغریب طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کی مکمل استعداد رکھتے ہیں۔ ‘‘۔حقیقت یہ ہے کہ خدمت خلق اسلام کا طرہ امتیاز ہے۔ دْکھی انسانیت کی خدمت اللہ تعالی کے نزدیک پسندیدہ عمل اور رضا ئے الٰہی کے حصول کا ذریعہ ہے۔ کریم آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ خدمت خلق کا عمدہ نمونہ ہے۔فلاح و بہبود کسی ایک فرد کی ذمہ داری نہیں ہر شخص میں خدمت خلق کا جذبہ ہونا چاہیے۔لیکن صورتحال ایسے نظر نہیں آتی۔ خدمت خلق کے حوالے سے نام نہاد تنظیمیںسیمینارمنعقدکرتی ہیںفوٹو سیشنز اور میڈیا کے ذریعے تشہیر ہو رہی ہے لیکن در حقیقت یہ سب سرگرمیاں نشستند، گفتند ، برخاستند تک محدود ہیں۔ سوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا، اورالیکٹرانک میڈیا پر ناصحین کی فوج دن رات نصائح میں مصروف ہے۔ ہر’’ناصح ‘‘ دل گرفتہ اور غمگین نظر آتا ہے۔ان معزز’’ناصحین ‘‘ کا دل کی اتھاہ گہرائیوں سے شکریہ لیکن…؎
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا
اللہ کا فضل و کرم ہے کہ ارض وطن کبھی بھی چارہ سازوں اور غم گساروں سے کبھی بھی خالی نہیں رہی۔ اگرچہ یہ افراد تعداد میں کم رہے لیکن ان کی خدمات عظیم اور قابل تحسین ہیں۔ ان معزز ہستیوں نے اپنی زندگیاں اور وسائل وقف کر دیے۔خدمت خلق کے یہ سر چشمے صدیوں سے جاری و ساری ہیں۔ قیام پاکستان سے قبل غیر مسلموں کی فلاحی اور سماجی خدمات بھی سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہیں۔ مثلاً سردیال سنگھ کا تعلیمی منصوبہ دیال سنگھ کالج اور دیال سنگھ لائبریری کی صورت میں علم کی روشنی پھیلا رہا ہے۔ سر گنگا رام فلاحی کاموں کی وجہ سے بہت مقبول ہوئے۔ انہوں نے دیگر فلاحی منصوبہ جات کے ساتھ اہالیان لاہور کو ایک معیاری ہسپتال تحفہ میں دیا۔ جناب عبدالستار ایدھی رحمتہ اللہ علیہ خدمت خلق کے میدان میں ایک عظیم نام ہے جنہوں نے خود کو غریبوں اور بے سہارا لوگوں کیلئے وقف کر رکھا تھا۔ محدود وسائل کے باوجودفلاحی منصوبہ جات کے ساتھ ساتھ ایمبولینس سروس کا ایسا نیٹ ورک قائم کیا جس کی مثال نہیں ملتی۔ پاکستانی مدَر ٹریسا اور ملک عزیز میں جذام کے مریضوں کی مسیحامحترمہ ڈاکٹر رتھ فاؤ نے پرآسائش طرززندگی کوترک کیا اور جرمنی سے پاکستان تشریف لائیں اور رنگ ونسل اور مذہب کا فرق کیے بغیرایسے مریضوں کیلئے زندگی وقف کردی جن سے انکے اپنے بھی دور بھاگتے تھے۔ لاہور کے ایک تاجر جناب میاں محمد منشی صاحب نے بہترین ہسپتال بنا کر حکومت کے حوالے کر دیا۔ ماہر بصیرت اور بصارت جناب ڈاکٹر حافظ فرخ حفیظ صاحب کا منصوبہ فری آئی کیمپسز کی صورت میں دور دراز علاقوں میں عوام کو آنکھوں کا نور تقسیم کر رہا ہے۔ ماہر تعلیم پروفیسر محبوب حسین صاحب چار دہائیوں سے دورافتادہ بستی میں علم کی شمع روشن کی جو معاشرہ سے جہالت اور غربت کے خاتمہ کیلئے نبرد آزما ہیں۔ بڑے شہروں میں چند مخیر حضرات لنگر کی صورت میںمزدور طبقہ کا معاشی بوجھ کم کرنے میں مدد کر رہے ہیں۔قابل تحسین ہیں وہ تمام متحرک اور فعال فلاحی تنظیمیں اور گمنام ہیرو جو دْکھی انسانیت کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کررہے ہیں۔ یہ مثالیں عوام کو اس شعبہ میں آگے بڑھنے اورعمل کا درس دے رہی ہیں۔ مشاہدہ ہے کہ اگر جذبہ جنوں ہو تو پھر وسائل کی کمی رکاوٹ نہیں۔ خلوص اور نیت صاف ہو تو پھر اس میدان میں چلنے والے کے ساتھ لوگ ملتے جاتے اور کارواں خود بخود بن جاتا ہے۔ جس نے کچھ نہ کرنا ہو اس کیلئے مسائل بہت۔ہرحکومت کی عوام کے بنیادی مسائل میں عدم دلچسپی اپنی جگہ، عوام حکومت سے بھی دو قدم آگے ہے، ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ ملک عزیز میں مخیر حضرات کی کمی نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے یہ حضرات خدمت خلق کے میدان میں آگے بڑھیں۔ ہرفرد کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ خدمت خلق کے جذبہ سے سرشار ہو کرضرورت مندوں اور محتاجوں کا درد اپنے دل میں سمیٹے اور اور انکے مسائل حل کرنے کی فکر کرے۔ محترمہ مدر ٹریسا نے بالکل صحیح کہا تھا’’ تم سو افراد کو کھا نا نہیں کھلا سکتے ایک کو تو کھلا دو ‘‘۔ شاعر کی نصیحت بڑی معقول بھی ہے اور قابل عمل بھی کہ
شکوۂ ظلمتِ شب تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے