سید رضی محمد کے دوسرے شعری مجموعے بوڑھے برگد کی آخری گفتگو‘‘ کی تقریبِ رونمائی

کراچی (نیوز رپورٹر) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی ادبی کمیٹی(شعروسخن) کے زیر اہتمام سید رضی محمد کے دوسرے شعری مجموعے بوڑھے برگد کی آخری گفتگو کی تعارفی تقریب کا انعقاد کیاگیا تقریب میں ڈاکٹر عالیہ امام، ڈاکٹر شاداب احسانی، فہیم شناس کاظمی، ڈاکٹر جاوید منظر سمیت کئی معروف ادیبوں نے شرکت کی، تقریب کی صدارت پروفیسر سحر انصاری نے کی جبکہ نظامت کے فرائض کرن سنگھ نے انجام دیے، اس موقع پر مجلس صدارت پروفیسر سحر انصاری نے کہاکہ ڈاکٹر رضی محمد شعورغم اور غفورغم کے شاعر ہیں،شعورِ غم کربلا سے انہیں ملا اور اس کے ساتھ جو موجودہ زندگی کو جس طرح انہوں نے دیکھا وہ غفورِغم کے طور پر ان کی شاعری میں ظاہر ہوا، یہ ایک ایسا مضبوط حوالہ اور گہری کیفیت ہے جس کو انسانیت میں سرفرازیت پر مبحوث پائیں گے، انہوں نے کہاکہ آج سید رضی محمد نے شاعری جیسی صنف کو اپنے خاص انداز سے پیش کرکے اپنے تخلیقی جوہر دکھا دیے ہیں، ڈاکٹر عالیہ امام نے اپنی گفتگو میں کہاکہ پختہ نظر شاعر وہ ہوتا ہے جو معاشرے کے تضادات پر گہری نظر نگاہ رکھتا ہے ، ہر ادیب اپنے عہد کا مفسر اور مشتہد ہوتا ہے اس لیے ان کی پوری زندگی اشتہاد کی طرف لے جاتی ہے جو نئی دنیا تخلیق کرنا چاہتے ہیں، انہوں نے کہاکہ جہل کے اس ریگزار میں جہاں دانشوری سربرہنہ ہے وہاں سید رضی محمد کی کتاب پر اتنی خوبصورت محفل کا انعقاد خوش آئند بات ہے اور آرٹس کونسل کراچی ادبی کمیٹی کی پختگی نظر کی علامت بھی ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی نے کہاکہ رضی محمد کی کتاب کا نام دیکھ کر مجھے گوتم بدھ یاد آگیا لیکن مجھے ایک دماغ سے سانس لیتی ہوئی شاعری لگتی ہے اس میں اطراف میں کیا ہورہا ہے اس پر توجہ دی گئی ہے۔ فہیم شناس کاظمی نے کہاکہ سید رضی محمد علم و ادب کے آدمی ہیں وہ شاعری کرتے نہیں، شاعر خودبخود ا￿  سے تخلیق ہوجاتی ہے، ڈاکٹر جاوید منظر نے سید رضی محمد کو سندھی اجرک کا تحفہ بھی پیش کیااور اقتباس پڑھ کر سنایا، راشد نورنے کہاکہ کتاب کا پہلا صفحہ کھولنے کے بعد بوڑھے برگد کی آخری گفتگو نے اچانک چونکا سا دیا، ان کی غزلوں کے ساتھ ان کی نظمیں بھی اس کتاب کا شعری رخ متعین کرتی ہیں۔صاحب کتاب ڈاکٹر سید رضی محمدنے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ تقریب کے انعقاد بہت خوشی محسوس ہورہا ہے میں تمام شرکائ￿ کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اس تقریب کو رونق بخشی، انہوں نے اپنی کتاب میں سے کچھ شعر بھی پڑھ کر سنائے۔
تقریب رونمائی 

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...