عمران کے اداروں پر حملے

میں ہر اس شخص کے حق میں ہوں جو میرے ملک کے اداروں اور بالخصوص مسلح افواج کا احترام کرتا ہے۔ عمران خان نے جب تک ہماری قومی فوج کو عزت دی اور اس کے ساتھ مل کر حکومت چلائی تو میں نے عمران کی ستائش میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ مجھے پہلا جھٹکا اس وقت لگا جب عمران خان نے کہا کہ اگرمیں حکومت سے نکلا تو زیادہ خطرناک ہوجائوں گا۔ ظاہر ہے یہ دھمکی فوج کو دی گئی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے نیوٹرل کی گردان شروع کردی اور یہ نکتہ بار بار دہرایا کہ نیوٹرل تو جانور ہوتاہے ۔ پھر امریکی خط کا مسئلہ درپیش ہوا ۔عمران خان نے کہا کہ میرجعفر اور میرصادق امریکہ کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں ۔ فوج پر اس سے زیادہ رکیک حملہ نہیں کیا جاسکتا تھا۔ عمران خان نے پھر حق اور باطل کا قصہ چھیڑا،کہ جو شخص امریکہ کا سہولت کار بنتا ہے ، وہ کفر کے راستے پر چل رہا ہے ۔ عمران خان پاک فوج اور بھارتی فوج کے فرق کو سمجھنے سے قاصر تھے۔ انہیں جن الفاظ اور جس لب ولہجے میں بھارتی فوج کو مخاطب کرنا چاہئے تھا، انہوں نے یہ لب و لہجہ ہماری اپنی قومی افواج کے خلاف استعمال کیا ۔ وہ اپنا توازن کھوبیٹھے تھے اور اسی پس منظر میں وہ حکومت سے بھی محروم ہوگئے۔ 
ان کے مخالف سیاسی اتحاد نے آئینی طریقے سے انہیں حکومت سے نکالا ،عمران خان حکومت سے تو ہاتھ دھوبیٹھے تو یہ صورتحال انکی برداشت سے باہر ہوگئی،اور انہوں نے اداروں کو بری طرح نشانہ بنانا شروع کردیا۔ وہ نہ فوج کو معاف کررہے تھے ، نہ عدلیہ کو۔ ہر حکومتی ادارہ ان کے نشانے پر تھا۔یہ صورتحال بدستور جاری ہے۔ میں عدلیہ اور فوج کو داد دیتا ہوں کہ انہوں نے کمال حوصلے اور برداشت کا مظاہرہ کیا ۔ 
عمران خان نے آئین کو بھی پس پشت دھکیل دیا۔ یہ آئین پاکستان میں جمہوریت اور استحکام کی علامت اور ضمانت ہے ۔ آئین ِ پاکستان کے مطابق عام انتخابات پانچ سال کی معینہ حکومتی مدت پوری ہونے کے بعد ہوتے ہیں ۔ مگر عمران خان آئین کو پامال کرتے ہوئے فوری الیکشن چاہتے ہیں۔ ملک کا ایک تہائی حصہ سیلاب نے برباد کرکے رکھ دیا ہے۔تین کروڑ انسان کھلے آسمان تلے پڑے ہیں، ان کے گھر بار، فصلیں اور مویشی سب کچھ سیلاب کی قدرتی آفت کی نذر ہوگئے ہیں ۔ ہزاروں کلومیٹر کی سڑکیں، پل، شاہراہیں ٹوٹ پھوٹ گئی ہیں۔ موذی وبائی بیماریاں خانماںبرباد لوگوں کی جانیں لے رہی ہیں۔ معصوم بچے مائوں کی گود میں ڈائریا،ڈینگی اور ملیریا سے تڑپ رہے ہیں۔ اس وقت حکومت کی یہ آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ سیلاب زدگان کی بحالی کو ترجیح دے ۔ مگر عمران خان لانگ مارچ کی دھمکیاں دیکر حکومت کو اس کی آئینی ذمہ داریاں اداکرنے سے روک رہے ہیں ۔ عمران خان کو صرف ایک فکر لاحق ہے کہ کسی طرح ان کو چھنی ہوئی کرسی واپس مل جائے۔ 
عمران خان آئین اور آئینی اداروں کا احترام نہیں کریں گے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ ملک میں قرآن وسنت کا نظام نہیں چاہتے۔ جب کہ آئین اس امر کی ضمانت دیتا ہے کہ ملک میں قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں ہوسکتی۔ اسی آئین کی رو سے قادیانیوں کو کافر قراردیا گیا ہے،عمران خان اگر آئین کو پامال کرتے ہیں تو یہ سمجھا جائے گا کہ وہ قادیانیوں کو دائرہ اسلام میں واپس لانا چاہتے ہیں ۔ ملکی آئین میں اقرار کیا گیا ہے کہ عدلیہ کے ذریعے لوگوں کو انصاف ملے گا ۔ عمران خان اگر آئین کے خلاف چلتے ہیں تو مظلوم طبقات یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ عمران خان عدلیہ کے ذریعے ان کو انصاف کی فراہمی کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ پاکستان کا موجودہ متفقہ آئین انسانی حقوق کی ضمانت فراہم کرتا ہے ،جبکہ عمران خان آئین کی پامالی کے ذریعے انسانی حقوق کے احترا م اور فراہمی میں حائل ہونا چاہتے ہیں۔ عمران خان رکن قومی اسمبلی اور وزیراعظم کے طور پر اسی دستورکے تحفظ اور اسکی بالادستی کا حلف اٹھاچکے ہیں، اس لئے انہیں اپنے روئیے پرنظرثانی کرنے کی ضرورت ہے ۔ انہیں سوچنا چاہئے کہ پاکستان کے چاروں صوبے وفاق کی لڑی میں اسی آئین نے پروئے ہوئے ہیںاور یہی آئین ملکی وحدت اور سلامتی کی ضمانت بھی فراہم کرتا ہے ۔ عمران خان اگر آئین کو سبوتاژ کریں گے تووہ ملکی یک جہتی اور وحدت کو پارہ پارہ اورکمزور کرنے کا باعث بنیں گے۔
عمران خان ہر روزاحتجاجی کال کی دھمکی دینے کا اشارہ کرر ہے ہیں ۔ عملی طور پر دیکھا جائے تو اس وقت عمران خان کی پارٹی کی حکومت پنجاب اور خیبرپختون خواہ میں قائم ہے۔ اگر عمران خان کی احتجاجی کال پر ان دونوں صوبوں کی پولیس عمران خان کے احتجاجی مظاہرین کے تحفظ کیلئے حرکت میں آئے گی، تو لازمی طور پر ان دونوں صوبوں کی پولیس کا مقابلہ اسلام آباد کی منحنی سی فورس سے ہوگا۔ وفاقی حکومت پارلیمنٹ ، ایوان عدل اور سفارتخانوںکے تحفظ کیلئے ضروری اقدامات کرنے کی پابند ہے ۔آئینی طور پر وہ رینجرز کی مدد لے سکتی ہے، مگر رینجرز پورے ملک میں سیکورٹی کی ڈیوٹی پر مامور ہیں اور پاک سرحدوں کے نگہبان ہیں۔ اس لئے وفاقی حکومت کو رینجرز کی بہت کم فورس میسر آسکتی ہے ۔ اسے لامحالہ فوج کو ریاست ِ پاکستان کے تحفظ کیلئے طلب کرنا پڑیگا۔خدانخواستہ اس طرح وہ افسوس ناک صورتحال جنم لے سکتی ہے جس کا پاکستان کے دشمنوں کو ایک مدت سے انتظار ہے کہ پاک فوج کو عوام کے سامنے لاکھڑا کیا جائے اور ملک میں خانہ جنگی کی صورتحال پیدا کردی جائے ۔ملکی سلامتی کی چولیں ہلاڈالی جائیں۔ واضح رہے کہ پاکستان کے دشمن اپنے طور پر افواج ِ پاکستان کو زیر کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ اس لئے کہ پاک فوج میزائلوں اور ایٹمی قوت سے لیس ہے ۔ ظاہر ہے ایسی فوج کو خانہ جنگی اور انتشار کی صورتحال سے ہی کمزور کیا جاسکتا ہے ۔ پاکستان کے دشمنوں کو ایسی صورتحال درکار ہے جس سے پاکستان کی سلامتی اور عدل وانصاف کے آئینی ادارے کمزور پڑجائیں۔ کیا عمران خان اگلا قدم اٹھانے سے پہلے یہ سوچنے کی زحمت کرینگے کہ کہیں وہ ملک و قوم کے دشمنوں کا کام تو آسان نہیں کررہے ۔ 

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...