پاکستان اس وقت جن مسائل سے دو چار ہے ان میں سب سے اہم سیاسی عدم استحکام ہے۔ اسی کی وجہ سے دیگر تمام معاملات بگاڑ کا شکار ہیں۔ سیاسی قیادت کو اس بات کا اندازہ تو ہے کہ سیاسی عدم استحکام کے باعث ملک کے لیے کیسے کیسے مسائل پیدا ہورہے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ زیادہ تر سیاسی قائدین اپنی اناؤں کے اسیر بنے ہوئے ہیں اسی لیے وہ اختلافات کو ایک طرف رکھ کر اکٹھے ہونے پر آمادہ دکھائی نہیں دیتے۔ یہ صورتحال عوام کی پریشانیوں میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔ سیاسی نظام اور جمہوری اداروں پر عوام کے اعتماد میں کمی کی وجہ بھی یہی ہے کہ سیاسی قیادت کی طرف سے عوامی مسائل کے حل کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں کیے جارہے اور جو کچھ کیا جارہا ہے اس کا فائدہ مراعات یافتہ طبقات کو ہی ہورہا ہے۔
یہ بھی ایک افسوس ناک امر ہے کہ سیاسی قیادت اپنے مسائل خود حل کرنے کی بجائے اداروں اور اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھتی ہے جس سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ سیاسی قائدین معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے کر سدھار پیدا کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ کئی مواقع پر ملک کو بد ترین حالات سے نکالنے کے لیے دوسرے ممالک کے ساتھ رابطے بہتر بنانے کے ضمن میں پاک فوج کے سربراہ کو اپنا کردار ادا کرنا پڑا۔ یہ ان کی بنیادی ذمہ داری تو نہیں ہے لیکن حالات کی سنگینی نے یہ فرض انھیں سونپ دیا جسے انھوں نے بخوبی نبھایا۔ اس سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جو کام سیاسی قیادت کو کرنا چاہیے اس کے لیے بھی عسکری قیادت کو آگے آنا پڑتا ہے۔
اب بھی ایسی ہی صورتحال ہے کہ سیاسی قیادت کی باہمی آویزش مسائل کو بڑھاتی جارہی ہے اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ملک کو استحکام کی راہ پر ڈالنے کے لیے اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں حال ہی میں ہونے والی پاسنگ آؤٹ پریڈ کے موقع پر جنرل قمر جاوید باجوہ نے اسی حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جعلی خبروں اور پروپیگنڈے پر توجہ نہ دیں، ملک کی حفاظت مضبوط ہاتھوں میں ہے۔ کسی ملک، گروپ یا تنظیم کو پاکستان کو سیاسی یا معاشی غیرمستحکم کرنے نہیں دیا جائے گا۔ مسلح افواج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق، آرمی چیف نے مزید کہا کہ ہماری امن کی خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔ پاکستان ایک پرامن ملک ہے اور ہمسائیوں سے اچھے تعلقات چاہتا ہے۔ ہمسایوں کے ساتھ تمام مسائل پرامن طور پر حل کرنے کے خواہاں ہیں۔
پاسنگ آؤٹ پریڈ سے خطاب کے دوران جنرل باجوہ نے یہ بھی کہا کہ ہم سیاسی جمود توڑنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیںجو جنوبی ایشیائی ملکوں کی ترقی اور پرامن اور باوقار طریقے سے تمام علاقائی اور دوطرفہ مسائل کے حل کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ پاک فوج کے سربراہ کے اس بیان سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ سیاسی قیادت وہ کردار ادا نہیں کررہی جو اسے کرنا چاہیے۔ اگر سیاسی قائدین عوام کی طرف سے کروڑوں ووٹوں کی شکل میں خود پر کیے جانے والے اعتماد کا ہی احساس کر لیں تو صورتحال میں مثبت اور خوشگوار تبدیلی آسکتی ہے۔ یہ تبدیلی ایک طرف سیاسی فضا میں پائی جانے والی کدورت کو صاف کرنے میں کردار ادا کرے گی اور دوسری جانب اس سے عوامی مسائل کے حل میں مدد ملے گی جس کی ملک اور قوم دونوں کو اس وقت اشد ضرورت ہے لیکن اس وقت جو صورتحال بنی ہوئی ہے اس میں تو یہ خیالِ محال ہی دکھائی دیتا ہے۔
سیاسی قیادت کے بیانات سے بھی یہی پتا چلتا ہے کہ رسہ کشی کا سلسلہ ابھی جاری رہے گا۔ اسی حوالے سے پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے قائد محمد نواز شریف نے لندن میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کے دور میں جو ہو ا ا س سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔ میری زندگی کے پانچ سال ضائع ہوگئے۔ مجھ سے انتقام لیتے لیتے ملک کا بیڑا غرق کر دیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ثابت ہوگیا مقدمہ جھوٹا اور سزا بھی غلط تھی۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں سیاسی اختلافات کو ذاتی دشمنی کا روپ دے کر مخالف کے خلاف آخری حد تک جا کر کارروائیاں کی جاتی ہیں۔ نواز شریف اور ان کے خاندان کے دیگر افراد پر بنائے گئے مقدمے بھی اسی معاملے کا ایک افسوس ناک رخ ہیں۔ لیکن اس وقت ملک کی فلاح و بہبود کے لیے ذاتی تکلیفوں اور ماضی کی زیادتی کو بھلا کر آگے بڑھنے کا وقت ہے۔ اس حوالے سے نواز شریف کو آصف زرداری کا ’جمہوریت بہترین انتقام ہے‘ والا فارمولا اپنانا چاہیے۔
اگر تمام سٹیک ہولڈرز متفق ہو کر ملک اور عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے سر جوڑ لیں تو جمہوریت واقعی غیر جمہوری عناصر سے لیا جانے والا بہترین انتقام ثابت ہوسکتی ہے ورنہ عوام میں پایا جانے والا یہ تأثر مزید پختہ ہوتا جائے گا کہ جمہوریت وہ انتقام ہے جس کا خمیازہ عام آدمی کو بھگتنا پڑتا ہے۔ ملک کو مختلف حوالوں سے جس عدم استحکام نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اس کے ڈانڈے سیاسی عدم استحکام سے جا ملتے ہیں، لہٰذا یہ ضروری ہے کہ کسی بھی طرح سیاسی عدم استحکام پر قابو پایا جائے اور اس کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز کا، انگریزی محاورے کے مطابق، ایک صفحے پر ہونا لازمی ہے۔ یہ ہماری سیاسی قیادت کا امتحان ہے کہ وہ وقت کے سب سے اہم تقاضے کا جواب کب اور کیسے دیتی ہے!