آپ کے وصال سے چند یوم قبل آپ حضرت شیخ علی سنجری کی خانقاہ پر موجود تھے۔ قوال حضرت احمد جام کی مشہور غزل:
گشتگان خنجر تسلیم را
ہر زمان از غیب جاں دیگر است
ترجمہ:۔ (جو لوگ تسلیم و رضا کے خنجر سے ذبح ہوتے ہیں ان کے لیے دونوں عالم کا غیب اور پوشیدہ الگ ہوا کرتا ہے۔ ان کے لیے غیب کے راز الگ ہوتے ہیں جو کوئی اور نہیں جانتا)
گا رہے تھے۔ جسے سن کر آپ پر وجد طاری ہو گیا اور بے ہوش ہو گئے، ہوش میں آتے تو پھر اسی شعر کی تکرار کا حکم فرماتے پہلے مصرعہ پہ آپ کی روح جسم مبارک سے غائب ہو جاتی جب دوسرے مصرعہ (مصرعہ ثانی) کی تکرار کرتے تو روح واپس آجاتی اور اسی طرح مصرعہ اولیٰ:
’’ گشتگان خنجر تسلیم را‘‘ کی تکرار پر آپ نے 12 ربیع الاوّل کو رحلت فرمائی۔
٭…٭…٭
قطب صاحب کی عجب وصیت اور سلطان التمش کا جنازہ پڑھانا
آپ کا جنازہ تیار تھا، اسی اثنا میں مولانا ابو سعید نے آپ کی وصیت سنائی کہ قطب صاحب نے فرمایا ہے کہ ’’میرا جنازہ وہ پڑھے جس نے کبھی حرام کام نہ کیا ہو اور جس کی سنت عصر اور تکبیر اولیٰ کبھی قضا نہ ہوئی ہو۔‘‘ یہ سب سُن کر ہزاروں کے مجمعے میں سناٹا چھا گیا، لوگ ایک دوسرے کا منہ دیکھ کر نظریں جھکانے لگے، پھر چشم فلک نے دیکھا کہ پچھلی صفوں سے دہلی کا سلطان (رضیہ سلطان کا والد) شمس الدین التمش سرتاپا عجز و انکساری کا پیکر جھینپتے ہوئے نظریں جھکائے آگے بڑھتا ہے اور کہتا ہے کہ میں ہرگز نہ چاہتا تھا کہ کسی کو میرے حال کی خبر ہو۔ قطب صاحب آپ نے مجھے آشکارا کردیا اور پھر سلطان التمش نے آپ کی نماز جنازہ ادا کی۔
٭…٭…٭
لحد مبارک سے پاؤں باہر آنے والا سوراخ 1947ء تک موجود رہا
قطب صاحب کے وصال کے چند سال بعد لحد مبارک پر درویشوں کا اجتماع تھا اور محفل سماع میں پھر وہی مولانا احمد جام کا شعر پڑھاگیا جس پر آپ کا وصال ہوا تھا اور جب قوالوں نے مصرعہ ثانی ہر زماں از غیب جاں دیگر است کی تکرار کی تو حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے پاؤں مبارک روضۂ مبارک سے باہر آ گئے اور شعر کی ہر تکرار پر باہر نکلتے چلے گئے۔ چنانچہ یہ صورتحال دیکھ کر تشویش کی لہر پیدا ہوئی اور مصرعہ اولیٰ کشتگان خنجر تسلیم را کی تکرار شروع کرائی گئی تو ان کے پاؤں مبارک روضۂ مبارک میں واپس چلے گئے جس جگہ سے پاؤں مبارک باہر آئے تھے ا س جگہ ڈیڑھ فٹ کا سوراخ بن گیا تھا۔ جس پر صندل کا ڈھکنا رکھا ہوا تھا اور عرس مبارک کے موقع پر اس میں عطر گلاب کا عرق، کیوڑہ اور دیگر خوشبویات ڈالی جاتی تھیں اوراس گھڑے کے کنارے پر جمنے والا صندل کھرچ کر بطور تبرک زائرین میں تقسیم ہوتا تھا۔ 1947ء کے فسادات میں جب دلی پر قیات ٹوٹی تو بلوائیوں نے درگاہ شریف پر بھی توڑ پھوڑ کی اور کٹہرہ بھی توڑ دیا تھا اور پائنتی کی جانب یہ سوراخ بھی بند ہو گیا۔
احمد جام کی غزل کی تکرار پر روح کا قفس عنصری سے پرواز کرنا
Oct 11, 2022