اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) نیب ترامیم کیس میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ ترامیم سے لگتا ہے جو ریکوری ہوگئی وہ رہے گی مزید نہیں ہوسکتی۔ عمران خان کے وکیل سے جسٹس منصور علی شاہ نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا آپ ابھی تک کیس کے بنیادی نکتے پر آئے ہی نہیں، عدالت کو بتائیں کہ کون سے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ وکیل خواجہ حارث نے کہا نیب کی 2019 میں پلی بارگین کی رقم اور ریکوری میں 6 ارب کا فرق ہے، سال 2020 میں 17.2 ارب کی پلی بارگین معاہدے ہوئے، 8.2 ارب ریکوری ہوسکے، ترمیم کے بعد تمام بقایا رقم نیب ریکور نہیں کر سکے گا، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کیا ترمیم سے پہلے نیب کو رقم ریکور ہو رہی تھی؟ کیا 2018 کے بقایاجات 2021 تک کلیئر ہوچکے تھے؟ ایسا لگتا ہے کہ ترامیم سے پہلے بھی نیب ریکوری نہیں کر رہا تھا، جس پر وکیل خواجہ حارث نے کہا نیب کو طے شدہ شیڈول کے تحت اقساط مل رہی تھیں، تاہم نیب حکام اس حوالے سے بہتر تفصیلات دے سکتے ہیں، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا پلی بارگین بقایاجات نہ دینے والوں کا ترمیم کے بعد ٹرائل ہوگا، ملزموں کو سزا بھی ہوسکتی ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا اگر مقدمہ 50 کروڑ سے کم کا ہوا تو ازخود خارج ہوجائے گا۔ احتساب عدالت نیب کا دائرہ اختیار ختم کردے تو پیسہ سرکار کے پاس کیسے رہے گا؟ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا مقدمہ ٹرائل کورٹ میں واپس جانے سے جرم کیسے ختم ہوگا؟۔ وکیل خواجہ حارث نے کہا ترامیم میں نیب کا اختیار 1985 سے ہی ختم کر دیا گیا ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا نیب قانون کا سیکشن 25 پلی بارگین کی قسط کی عدم ادائیگی سے متعلق ہے، وکیل نے کہا نئی ترامیم میں ملزم پلی بارگین کی رقم واپسی کا مطالبہ بھی کر سکتا ہے، ایک شخص پلی بارگین کی قسطیں کیوں ادا کرے گا جب اسے معلوم ہے کہ وہ نئے قانون سے مستفید ہو سکتا ہے، جسٹس منصور نے کہا کہ اس سے تو یہ ثابت ہوا کہ پلی بارگین کے بعد بھی ملزم کا اعتراف جرم تصور نہیں ہو گا، نیب قانون کے سیکشن 9 اے فائیو میں ترمیم کے بعد ملزم سے نہیں پوچھا جا سکے کہ اثاثے کہاں سے بنائے، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کیا اب کسی کو غیر قانونی ذرائع سے بنائے گئے اثاثے نیب کو ثابت کرنا ہوں گے؟۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ رکشے اور فالودے والے اکاؤنٹس کس کے تھے؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ سابق صدر زرداری نے فالودے والے اور رکشے اکاؤنٹس سے انکار کیا۔ تاہم ان میں سے جعلی اکاؤنٹس عبدالغنی مجید اور انکی کمپنیوں کے بے نامی دار تھے۔ جعلی اکاؤنٹس میں رقم کا کل حجم 42 ارب روپے بنتا ہے۔ ایمنسی سکیم سے فائدہ اٹھانے والوں سے بھی نیب پوچھ گچھ نہیں کر سکتا۔ چیف جسٹس نے کہا ایمنسٹی سکیم میں پیسہ ظاہر کرنے سے ٹیکس تو فری ہو گیا اگر کمائی کا ذریعہ سامنے نہیں آتا تو جرم اپنی جگہ رہتا ہے۔ وکیل خواجہ حارث کے دلائل جاری تھے کہ عدالت نے مزید سماعت منگل تک ملتوی کردی۔