یہ خودی اور انا کس نے عنایت کی ہے؟
میں نے ہر حال میں دْنیا سے بغاوت کی ہے
آپ نے مْجھ کو کوئی دل میں جگہ دی کہ نہ دی
مَیں نے تو آپ سے بھر پْور محبّت کی ہے
ہم نے ہر حال میں انسان کو انساں جانا
زور و زر والوں نے انسان سے نفرت کی ہے
تم نے اک لفظ بھی اب تک نہ نکالا منہ سے
برسرِ دار بیاں میں نے حکایت کی ہے
دل میں رکھّی نہیں انساں سے عداوت میں نے
جب بھی کی اہلِ زمانہ سے عداوت کی ہے
ایک گْمنام سا خط میں نے لکھا ہے اْن کو
اْن کو معلوم ہے یہ مَیں نے شرارت کی ہے
کوئی ماحول، نہ موسم، نہ حمایت حاصل
ہا? کم بخت نے کس وقت بغاوت کی ہے
ہر طرف گرم ہے جو فتنہ گری کا بازار
کس نے دیکھو یہ پسِ پردہ ضلالت کی ہے
جعفری مردِ قلندر تو نہیں ہوں پھر بھی
حرفِ حق دار پہ کہنے کی جسارت کی ہے
مقصود جعفری