عیشہ پیرزادہ
ایک وہ وقت بھی تھا جب یہ خیال کیا جاتا کہ سکول کے بعد گھر پر بچے کو گھر ماں ہی پڑھائے۔ کیونکہ ماں ہی ہے جو اپنے بچے کی خامیوں اور کمیوں کو پہچان کر انھیں دور کرنے کے لیے خود پڑھائے تو بچے کی صلاحیتیں نکھر سکتی ہےں۔ بلکہ ٹیوشن وہ بچے جایا کرتے تھے جن کی مائیں کم پڑھی لکھی تھیں۔
لیکن وقت گزرنے کے ساتھ بچے کو ٹیوشن پڑھانے کا ٹرینڈ بنتا جا رہا ہے۔ عالم یہ ہے کہ تعلیم یافتہ ماﺅں کے بچے بھی سکول کے بعد ٹیوشن جاتے ہیں۔ اس کے باوجود اکثر بچے امتحانات میں اچھے گریڈز نہیں لا پاتے ۔ پھر مائیں ہاتھ میں رپورٹ کارڈ پکڑے سکول اور پھر ٹیوشن کا رخ کرتی ہیں اور پہلا شکوہ یہی ہوتا ہے کہ میرے بچے نے کم نمبر کیوں لیے، اس پر توجہ زیادہ دیں۔
حالانکہ وجوہات کئی ہو سکتی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ بچے کا پڑھائی میں دل نہ لگتا ہو۔ ریاضی کے اعداد و شمارسمجھنے میں وہ الجھن کا شکار ہو۔ ایسے سوالوں کا ذخیرہ بچے کو تنگ کررہا ہو جس کا جواب اسے سکول کی ٹیچر یا ٹیوشن والی باجی نہ دے پا تے ہوں۔
بچے کی نفسیات صرف اس کی ماں ہی سمجھ سکتی ہے۔ سیکھنے کی اس عمر میںبچے کے ذہن میں ہر روز ایک نیا سوال جنم لیتا ہے۔ بچہ اس وقت تک جواب جاننے کی جستجو میں الجھا رہے گا جب تک اسے مطمئن کر دینے والا جواب نہ مل جائے۔ ہم عموما یہی دیکھتے ہیں کہ ٹیچر بچے کو اسی انداز میں پڑھائے گا جو اسے آتا ہے۔ ٹیوشن والی باجی بچے کو وہی کر وائے گی جو سکول کی ڈائری میں درج ہو۔ اس کا کام سلیبس مکمل کر وانا ہے، لیکن وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ ہر بچے کی نفسیات مختلف ہے۔
ایسے بچوں کے لیے ضروری ہے کہ انھیں ماں کی توجہ ملے۔ تعلیم یافتہ ماں ہی بچے کے ہر سوال کا جواب دے سکتی ہے، اسے پڑھائی میں کیا مشکلات درپیش ہیں ،یہ ماں ہی جان سکتی ہے۔ بچے کی نفسیات اس کی ماں سے زیادہ کوئی نہیں جان سکتا۔
میں ایسی تعلیم یافتہ ماﺅں کو جانتی ہوں جو اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے پیش نظر بچوں کو ٹیوشن لگوا دیتی ہیں۔ ایسے بچے جب کم گریڈ لائیں تو وہ مائیں ٹیوشن پڑھانے والے کو اس کا ذمہ دار سمجھتی ہیں۔
جبکہ اکثر مائیں بچوں کو ٹیوشن بھیجنے کا یہ عذر بتاتی ہیں کہ ان کے بچے چونکہ بہت شرارتی ہیں اور ماں کے سامنے لاڈ دکھاتے ہیں اس وجہ سے پڑھائی کے وقت وہ ماﺅں کے قابو سے باہر ہو جاتے ہیں۔ ان بچوں کو کنٹرول کرنے کے لیے ٹیوشن ہی واحد حل بچتا ہے۔
وہ کون سا بچہ ہوگا جو ماں کیسا تھ لاڈ سے پیش نہ آتا ہو۔ لیکن یہ بات بچے کو خود بآور کروانی پڑتی ہے کہ پڑھائی کے وقت کوئی شرارت نہیں۔ ایسی مائیں بھی ہیں جو تمام دن بچے کیساتھ نرم رویہ رکھتی ہیں، لیکن جیسے ہی پڑھنے کا وقت ہو ،ماں کا انداز یک دم سنجیدگی میں بدل جاتا ہے۔ ایسے بچوں کی کم عمری سے ہی تربیت کی جاتی ہے کہ وہ ماں کو ستائے بناءہی کتاب کھول کر بیٹھ جاتے ہیں۔
آپ کے لیے یہ حیرت کی بات ہوگی کہ آئن سٹائن سے زائدآئی کیو لیول رکھنے والی ماہ نور چیمہ جنھوں نے برطانوی امتحان جی سی ایس سی کے 34 مضامین میں 99 فیصد ’ اے سٹارز‘ حاصل کیے ہیں سے ایک انٹرویو میں معلوم ہوا کہ ماہ نور کو شروع سے ہی ان کی والدہ نے پڑھایا۔
اس کے علاوہ ارفہ کریم جنھیں محض نو برس کی عمر میں مائیکرو سافٹ سر ٹیفائیڈ کا اعزاز ملا کو بھی ان کی والدہ نے گھر پر تعلیم دی۔ دنیا بھری پڑی ہے ایسے کامیاب بچوں کی کہانیوں سے جنھیں اگر آپ جاننے بیٹھیں تو ان کی کامیابی کے پیچھے ان کی ماﺅں کا ساتھ نکلتا ہے۔یہ درست ہے کہ ماں کی گود بچوں کے لیے بہترین درس گاہ ہے۔
ایسی تعلیم یافتہ مائیں جنھیں بچوں کو پڑھانے میں دشواری پیش آتی ہے وہ اگر درج ذیل چند باتوں کو ذہن نشین کر لیں تو بچے کو ٹیوشن بھیجنے کی نوبت کبھی نہیں آئے گی۔
سبق کو دلچسپ انداز میں سمجھایا جائے تاکہ وہ ذہن نشین کرلے۔ ہمیشہ ایک ڈرائنگ بک ساتھ رکھیں، اس میں مختلف اشکال، نقشے، ڈیزائن وغیرہ بناکر بچوں کو سمجھائیں۔
بچوں کا املا، یا ہوم ورک وغیرہ چیک کرنے کا کام بعد میں کریں۔ ابتدا میں ان کو پڑھانے، سمجھانے کی کوشش کیجیے بچوں کے مضامین سے متعلق رہنما کتب یا ان اسباق سے متعلق مضامین پہلے سے پڑھ لیں۔ اس کے لیے انٹرنیٹ سے بھی مدد لی جاسکتی ہے۔ کیونکہ اگر ماں لاعلم ہوگی یا مضمون یا متعلقہ سبق کے متعلق ماں کی معلومات ناکافی ہوں گی تو اس کے لیے بچے کو پڑھانا مشکل ہوگا۔
سبق اچھا یاد کرنے یا ٹیسٹ میں اچھے نمبر لانے پر شاباشی ضرور دیں۔ کسی مشہور شخصیت یا جگہ کے متعلق پڑھا رہے ہوں تو کوشش کیجیے تصاویر کے ذریعے اس کو دلچسپ انداز میں پڑھائیں۔کھیل کے شوقین بچوں کو اس طرح پڑھائی کی طرف راغب کریں کہ اگر تم نے ہوم ورک کرلیا یا ریاضی کے ٹیبل یاد کرکے سنا دیے تو تمھیں کھیلنے کے لیے جانے دوں گی یا پڑھائی کے دوران دس سے پندرہ منٹ کا کھیل کا وقفہ رکھ لیں تاکہ بچے تازہ دم ہوکر دوبارہ سے پڑھائی پر توجہ دیں۔ ان مشوروں پر اگر مائیں عمل کریں تو یقینا ان کا بچہ نہ صرف اچھے گریڈ لے گا بلکہ ٹیوشن کی بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھٹی یقینی ہے۔
بچے کو ٹیوشن کی بجائے گھر میں پڑھائیں
Oct 11, 2023