”یہ گھڑی محشر کی ہے“

اس وقت اقوام عالم میں عالمی‘ علاقائی اور مقامی سطح پر مذہب‘ اقتصادیات و اخلاقیات اور نسلی مناقشت کی بنیاد پر انتشار‘ افراتفری اور جنگ و جدل کا جو نقشہ ابھر رہا ہے‘ مجھے تو یہ انسانوں کے ہاتھوں انسانوں کے خاتمے کی عملی صورت بنتی نظر آرہی ہے۔ یہ خالقِ کائنات خدوند کریم کی جانب سے آگاہ کی جانیوالی قربِ قیامت کی نشانیاں بھی ہو سکتی ہیں۔ سو ابتلاءکا یہ دور مشیتِ ایزدی کے تحت اس کرہ¿ ارض پر انسان نامی مخلوق کو اسکے خاتمہ والے انجام کی جانب دھکیلتا نظرآرہا ہے۔ آج وسطی ایشیاءمیں گزشتہ دو سال سے جاری روس‘ یوکرائن جنگ کی پیدا کردہ اقتصادی اور ماحولیاتی کھٹنائیاں اس کرہ¿ ارض کی تقریباً پوری انسانی مخلوق کیلئے اقتصادی‘ مالی اور روٹی روزگار کے سنگین مسائل پیدا کرکے انسانی بقاءکیلئے خطرے کی گھنٹی بجا رہی ہیں اور اس جنگ کے دوران ہی مشرقِ وسطیٰ میں فلسطین اور اسرائیل کے مابین جدید ترین ٹیکنالوجی اور ہتھیاروں کے ساتھ جنگ کی شروعات ہوئی ہیں تو اسکے نتیجہ میں ہتھیاروں کے استعمال سے ہی نہیں‘ گھمبیر ہوتے اقتصادی مسائل کے باعث بڑھتی بھوک‘ پیاس سے بھی اس کرہ¿ ارض پر جابجا انسانی لاشوں کے ڈھیر لگتے نظر آ رہے ہیں۔ امریکہ‘ چین‘ روس‘ برطانیہ کی شکل میں دنیا کی بڑی طاقتیں اپنے اپنے مفادات اور جاہ و حشمت کے مظاہر دکھانے کیلئے واضح طور پر دھڑوں میں تقسیم ہو چکی ہیں۔ مغرب‘ یورپ کا دھڑا‘ جنوبی‘ شمالی اور وسطی ایشیاءکو اپنے زیرنگیں رکھنے کی کوشش میں وہاں ریاستوں کے مابین فساد بڑھا رہا ہے۔ عرب ریاستوں اور مشرق وسطیٰ کے دوسرے ممالک میں وسائل سے مالامال ہونے کے باوجود اپنے پاﺅں پر کھڑا ہونے کی سکت معدوم ہوتی نظر آرہی ہے جبکہ مسلم دنیا پر مکمل غلبہ پانے کی الحادی قوتوں کی خواہش و کوشش نے عملاً پورے کرہ ارض کو مستقل بدامنی کی جانب دھکیل دیا ہے۔ 
دنیا میں امن کی خواہش کو ممکنہ طور پر ایک نیا دھچکا آئندہ ماہ نومبر کے آغاز میں پاکستان اور افغانستان کی سرزمین پر بھی لگ سکتا ہے اور یہ بدامنی بڑھتے بڑھتے پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ کابل کی طالبان انتظامیہ کی ڈھیل اور عملاً سرپرستی کے باعث پاکستان کی سلامتی کے درپے اسکے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کی سازشیں پاکستان میں بڑھتی دہشت گردی اور اقتصادی کساد بازاری کی صورت میں کامیاب ہوتی نظر آئیں تو پاکستان کی عسکری اور سول قیادتوں کو مجبوراً اپنی ارض وطن کو یہاں سالہا سال سے غیرقانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین سے خالی کرانے کا فیصلہ کرنا پڑا جس کیلئے غیرقانونی مقیم غیرملکی باشندوں کو پاکستان سے نکل جانے کیلئے رواں ماہ کی 31 اکتوبر کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے۔ کابل حکومت تو پہلے ہی پاکستان میں اودھم مچانے کی منصوبہ بندی کئے بیٹھی تھی جس کیلئے بھارت عملاً اسکی پشت پر کھڑا ہے۔ اب پاکستان کی جانب سے غیرقانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین کو، جن کی آبادی 45 لاکھ تک جا پہنچی ہے‘ پاکستان چھوڑنے کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے تو پاکستان کے اس فیصلے کیخلاف کابل انتظامیہ سخت مزاحمت کا عندیہ دینے لگی ہے۔ چمن اور طورخم کی پاک افغان سرحد پر کابل انتظامیہ نے پہلے ہی کشیدگی انتہاءکو پہنچائی ہوئی ہے جہاں وقفے وقفے سے افغانستان کی جانب سے فائرنگ اور گولہ کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
اب پاکستان چھوڑنے کی ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد افغان مہاجرین، جن میں افغانستان اور پاکستان کی تحریک طالبان کے کارکن کثیر تعداد میں شامل ہیں اور جدید ہتھیاروں‘ گولہ بارود اور اسلحہ سے لیس ہیں‘ کابل انتظامیہ کی آشیرباد کے ساتھ پاکستان کی سکیورٹی فورسز کیخلاف مزاحمت کا سلسلہ شروع کرینگے تو بھارت بھی انکی کمک کو پہنچے گا۔ اس طرح یہ مزاحمت پاکستان اور افغانستان کے مابین باقاعدہ جنگ کی شکل اختیار کر سکتی ہے جس میں بھارت لامحالہ افغانستان کی پشت پر کھڑا ہوگا۔ اس صورتحال میں بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس خطے اور پورے کرہ ارض پر علاقائی اور عالمی امن کا کیا حشر ہوگا۔ کرہ¿ ارض کے ایک خطے میں روس یوکرائن جنگ سے زمینی قدرتی وسائل کو پہنچنے والے ناقابل تلافی نقصانات‘ دوسرے خطے میں اسرائیل اور حماس (فلسطین) کے مابین گھمسان کے رن سے انسانی زندگی کی جانب لپکتے بھوک‘ بدحالی اور وسائل کی بربادی کے سنگین مسائل اور پھر اس سنگین صورتحال میں پاکستان اور افغانستان کے مابین بھی مڈبھیڑ ہو گئی جس میں بھارت بھی پاکستان کیخلاف اپنا لچ تلتا نظر آئے گا تو کیا اس کرہ¿ ارض پر انسانوں کے زندہ رہنے کے کوئی آثار باقی رہ جائیں گے؟
اس وقت بھی پہلے کورونا وبا کے باعث تباہ ہونیوالی دنیا کی مستحکم معیشتوں کو روس یوکرائن جنگ نے مزید برباد کیا اور اب اسرائیل فلسطین جنگ نے انسانی برادری کیلئے مزید بھوک‘ بدحالی اور تباہی کے راستے کھول دیئے ہیں۔ امریکہ اسرائیل کی کھلی مدد کو آیا ہے تو روس نے ایسی ہی امداد کی کمک فلسطینیوں کو پہنچانے کا کھلا اعلان کیا ہے۔ ایران اور ترکیہ کی جانب سے پہلے ہی حماس کے ساتھ کھڑا ہونے کا اعلان کیا جا چکا ہے جس کے باعث اسرائیل و فلسطین کی جنگ پورے مشرق وسطیٰ اور پھر پورے کرہ¿ ارض تک پھیلتی نظر آرہی ہے۔ ان دو جنگی محاذوں کے بعد خدانخواستہ پاکستان اور افغانستان کے مابین بھی جنگی محاذ کھل جاتا ہے جو درحقیقت پاکستان اور بھارت کے مابین جنگی محاذ ہوگا‘ تو بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس کرہ ارض پر انسانی زندگیوں کا کیا حشر نشر ہوگا۔ بالخصوص اس صورتحال میں جب ایٹمی ٹیکنالوجی سے لیس ممالک ایک دوسرے کے مدمقابل ہونگے تو ایک دوسرے کیخلاف ایٹم بم کا استعمال کوئی دور کی بات تو نہیں رہے گی۔
اور دنیا کے جس نمائندہ ادارے اقوام متحدہ نے ریاستوں کو باہمی تنازعات میں الجھنے اور جنگ و جدل کا راستہ اختیار کرنے سے روکنا ہے‘ وہ خود ہی محض ایک طاقت امریکہ کی کٹھ پتلی بن کر علاقائی اور عالمی امن یقینی بنانے کیلئے خود کو غیرمو¿ثر ثابت کر چکا ہے اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس والے "اصول" کو کھلی دعوت دے رہا ہے جس کی سلامتی کونسل حماس‘ اسرائیل کی جنگ ختم کرانے کے معاملہ میں بھی کسی نتیجہ تک نہیں پہنچ سکی۔ تو پھر جناب! دنیا میں کونسی وہ مو¿ثر اور مکمل غیرجانبدار طاقت ہے جو جنگ و جدل کی جانب بڑھتے انسانوں کے ہاتھ فوری طور پر روک سکتی ہو۔ جو اایسی طاقت رکھتے ہیں‘ وہ خود اپنا اسلحہ بیچنے کیلئے مختلف ممالک میں جنگ و جدل کو فروغ دے رہے ہیں۔ اس ماحول میں جب سارے کاروبار اور سارے انسانی وسائل تباہ و برباد ہو جائیں گے تو بچے کھچے انسان بھوک سے مر جائیں گے۔ سو اس کرہ¿ ارض پر انسانوں کی تنگی‘ بے بسی‘ لاچارگی اور کس مپرسی کا پیدا ہونیوالا یہی ماحول مجھے مشیتِ ایزدی کا نقارہ بنتا نظر آرہا ہے۔ قدرت کی حکمت کے آگے بھلا کوئی انسان پر مار سکتا ہے۔ اگر قدرت کی حکمت کے تحت اس دنیا کی طبعی عمر پوری ہو رہی ہے تو انسانوں کے ہاتھوں ہی انسانوں کی بربادی کے پیدا ہوتے اسباب بھی مشیتِ ایزدی کا ہی نقارہ بجا رہے ہیں۔ اس لئے جناب! 
یہ گھڑی محشر کی ہے، ت±و عرصہ¿ محشر میں ہے
پیش کر غافل اگر کوئی عمل دفتر میں ہے

ای پیپر دی نیشن