نسلوں سے ا±بلتے غصے کا عملی اظہار

بھارت کے سوشل میڈیا پر چھائے ہندوانتہا پسندوں کا ایک گروہ ان دنوں بہت شاداں ہے۔ گزرے ہفتے کے روز جب فلسطینی مزاحمت کاروں کی ایک تنظیم کے لوگ غزہ کی پٹی سے پرندوں کی طرح ا±ڑکر اسرائیل کے جنوب میں بسائی آبادیوں میں ا±ترے تو دنیا ہکا بکا رہ گئی۔فلسطینیوں کو ان کی زمین سے زبردستی جلاوطن کرنے کے بعد جو بستیاں آباد ہوئی تھیں وہاں مقیم کئی افراد کو مزاحمت کاروں نے اغوا کرلیا۔ مزاحمت کرنے والوں کو موت کے گھاٹ ا±تاردیا گیا۔
جو مناظر اس دوران دیکھنے کو ملے وہ ہرگز ”معمول کی جنگ“ کے نمائندہ نہیں تھے۔ کم از کم گزشتہ پچاس برس سے صہیونی قابض گروہوں کے ظلم وبربریت کا نشانہ بنے نوجوانوں کے دلوں میں نسلوں سے ا±بلتے غصے کا عملی اظہارتھے۔ جس غصے کا اظہار ہوا میں اس کی تاریخی وجوہات سے بخوبی آگاہ ہوں۔ اس کے باوجود یہ محسوس کیا کہ جس انداز میں کئی دہائیوں سے واجب بنیادوں پر ا±بلتے غصے کا اظہار ہورہا ہے وہ مناسب نہیں۔بہتر یہی تھا کہ عام شہریوں کے بجائے قابض افواج اورریاست کے طاقت ور افراد یا علامات کو نشانہ بنایا جاتا۔
جارحانہ پیش قدمی کی لیکن اپنی حرکیات Dynamicsہوتی ہیں۔یلغار کے وقت حملہ آوروں کی کامل توجہ دہشت پھیلانے پر مرکوز رہتی ہے۔وہ اس کے عواقب کو قطعاََ نظرانداز کردیتے ہیں۔ عرب-اسرائیل تنازعے کا کئی برسوں سے مشاہدہ کرنے کی بدولت غزہ کی پٹی سے ہوئی مداخلت کے چند ہی گھنٹوں بعد میں یہ سوچتے ہوئے پریشان ہونا شروع ہوگیا کہ فلسطینی مزاحمت کاروں کی یلغار کے دوران دنیا بھر میں سوشل میڈیا کے ذریعے جو تصاویر وائرل ہورہی ہیں ان کی بدولت اسرائیل کی حکومت غزہ کی پٹی تک محدود کئے 20لاکھ فلسطینیوں کو صفحہ¿ ہستی سے مٹانے کے ارادے اور کارروائیوں کو ”جائز“ شمار کرے گی۔ بدقسمتی سے میرے خدشات بتدریج درست ثابت ہورہے ہیں۔
بہرحال ہفتے کے دن ہوئی یلغار کے دوران سوشل میڈیا کا فکر مندی سے مشاہدہ کرتے ہوئے میں نے اچانک یہ دریافت کیا کہ ٹویٹر پر حاوی ہندوانتہاپسندوںکے چند مخصوص نام تواتر سے ایسی تصویریں پھیلارہے ہیں جن میں اسرائیلی خواتین کو اغوا کرکے غزہ کی جانب لے جایا جارہا ہے۔یہ تصاویر پھیلاتے ہوئے ڈھکے چھپے الفاظ میں نہیںبلکہ نہایت ڈھٹائی سے یہ پیغام بھی دیا جارہا ہے کہ مسلمان اپنی سرشت میں ”درندے“ ہیں۔دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والی خواتین ان کے لئے ”مال غنیمت“ کے سوا کسی اور شناخت کی حق دار نہیں۔مذکورہ تصاویر کو سوشل میڈیا پر پھیلاتے ہوئے جو پیغامات لکھے جارہے تھے وہ درحقیقت بھارت میں آباد مسلمانوں کو ”وحشی درندے“ثابت کرنے کی منظم کوشش تھی۔
اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر چھائے ہندوانتہاء پسندمودی حکومت سے یہ مطالبہ بھی کرتے رہے کہ وہ فی الفور اسرائیل کے ساتھ کامل ہمدردی اور یکجہتی کا اظہار کرے۔اس کے علاوہ تقاضہ یہ بھی ہوا کہ اگر اسرائیل ازخود ”دہشت گردوں“ پر قابو پانے کے قابل نہیں رہا تو بھارتی افواج کو ان کی مدد کے لئے بھیجنے کی راہ نکالی جائے۔بھارت کے چند شہروں میں نیکرپہنے ہندوانتہا پسندوں کی جما عت آر ایس ایس کے رضا کاروں نے بھی اپنی روایت کے مطابق اسرائیل کی حمایت میں ”فوجی پریڈ“ شروع کردی۔
اسرائیل کی حمایت میں ہوئی اس پریڈ کو دیکھتے ہوئے میرا پنجابی محاورے والا ”ہاسا“ نکل گیا۔ یاد رہے کہ آر ایس ایس نے نیکر پہن کر ”فوجی پریڈ“ کا سلسلہ پہلی جنگ عظیم کے بعد ہٹلر کی نازی جماعت سے متاثر ہوکر شروع کیا تھا۔ ہٹلر ہی کی طرح یہ جماعت بھی دنیا میں ”آریانسل“ کی برتری کا احیاءچاہتی تھی۔ ہٹلر اور اس کی جماعت کے ہاتھوں یہودیوں پر ہوئے ظلم نے برطانوی سامراج کو اسرائیل کے نام پر صہیونی ریاست کے قیام کا جواز فراہم کیا تھا۔ اس ریاست کے ”تحفظ“ کے لئے ہٹلر سے متاثر ہوئی آر ایس ایس کے رضا کاروںکا جنون مجھے احمقانہ حد تک بچگانہ لگا۔اندھی نفرت مگر آپ سے کچھ بھی کروادیتی ہے۔
اس کالم کے باقاعدہ قاری بخوبی جانتے ہیں کہ میں 1984ءسے رواں صدی کے ابتدائی پانچ سالوں تک تقریباََ ہر سال بھارت طویل قیام کے لئے جاتا رہا ہوں۔1990ءکی دہائی شروع ہونے سے قبل بھارت اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حق میں بھی نہیں تھا۔ قیام پاکستان کے چند ہی برسوں بعد جب مصر میں جمال عبدالناصر کی قیادت میں انقلاب برپا ہوا تو بھارت کے جواہر لال نہرو نے اس کا والہانہ خیر مقدم کیا۔نہر سوئزکو قومیانے کی وجہ سے مصر کی برطانیہ سے جو جنگ ہوئی اس میں بھی نہرو حکومت ناصر کی حمایت کرتی رہی۔ پاکستان بدقسمتی سے ان دنوں سیٹو اور سینٹو جیسے اینگلوامریکن اتحادوں کا حصہ بننے کو بے چین تھا۔ سینٹوکا قیام بلکہ عراق کے دارلحکومت بغداد میں ہوا تھا۔اسی باعث ابتداََ اسے معاہدہ بغداد کہا جاتا تھا۔پاکستان،ایران،ترکی اور عراق اس کی بدولت امریکہ کے ”اتحادی“ بن گئے تھے۔
پاکستان جب ”امریکن بلاک“ کا حصہ بن گیا تو نہرو نے مقبوضہ کشمیرمیں ریفرنڈم کروانے سے انکارکردیا۔ سوئز کی وجہ سے مصر کی حمایت کرتے ہوئے انڈونیشیا کے سوئیکارنو کے ساتھ مل کر ”غیر جانبدار تحریک“ نامی ا تحاد بنایا جس میں شامل ملکوں نے امریکی اور روسی کیمپ سے یکساں دوری رکھنے کا اعلان کیا۔ ”غیر جانب داری“ کی بنیاد پر گہرے ہوئے رشتوں کی بدولت بھارت پاکستان کو عرب عوام کے روبرو ”امریکہ کے غلام“ کی صورت پیش کرتا رہا اور وہ کشمیر میں جاری تحریک آزادی سے بھی لاتعلق رہے۔
1973ءمیں لیکن ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے عرب-اسرائیل جنگ میں شام جیسے ممالک کا فوجی اعتبار سے عملاََ ساتھ دیا۔ا±س کی بدولت پاکستان کی ”شناخت“ عرب عوام میں مختلف نظرآنے لگی۔ فروری1974ءمیں لاہور میں ہونے والی اسلامی ممالک کی کانفرنس نے بالآخر پاکستان کو عرب دنیا میں ایک طاقت ور ملک بناکر دکھانا شروع کردیا۔1980ءمیں ہوئے ”افغان جہاد“ نے پاکستان کو مسلم دنیا میں ایک ”رہ نما“ ملک کی صورت اجاگرکیا۔ بھارت کے ہندوانتہا پسند اس دہائی میں اسرائیل کے دوست ہونا شروع ہوگئے۔1990ءکا آغاز ہوتے ہی بھارتی میڈیا میں تواتر سے ایسے مضامین چھپنا شروع ہوگئے جو اصرار کرتے تھے کہ ان کی حکومت ”کشمیری دہشت گردوں“ کے ساتھ نرم رویہ اختیار کئے ہوئے ہے۔ اسے تحریک آزادی کے خاتمے کے لئے ویسے ہی حکمت عملی اوررویہ اختیار کرنا چاہیے جو اسرائیل اور خاص طورپر اس کی خفیہ ایجنسی فلسطینی تحریک کو کچلنے کے لئے اختیار کئے ہوئے ہے۔بالآخر ان افراد کی کوششیں رنگ لائیں۔واجپائی کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت پہلی بار برسراقتدار آئی تو بھارت-اسرائیل تعلقات بہت تیزی سے گہرے اور قریب تر ہونا شروع ہوگئے۔ مقبوضہ کشمیر میں حریت پسند تحریک کچلنے کے لئے اس دوران موساد سے تعلق رکھنے والے ماہرین بھارتی خفیہ ایجنسی را کے مددگار بھی رہے ہیں۔ 
نریندرمودی کی موجودہ حکومت لیکن ان دنوں اسرائیل سے کہیں زیادہ عرب اور خاص طورپر خلیجی ممالک سے بھاری بھر کم سرمایہ کاری کی طلب گار ہے۔ حال ہی میں دلی میں G-20ممالک کی جو کانفرنس ہوئی اس کے دوران بھارت کو بذریعہ ایران /عرب یورپ سے ”براہ راست“ ملوانے کے منصوبوں کا ذکر بھی ہوا ہے۔میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ سوشل میڈیا پر نہایت ڈھٹائی سے فلسطینیوں کو (جو بالآخر عرب ہی ہیں)”وحشی درندے“ پکارتے ہوئے ہندوانتہا پسند عرب دنیا سے کس بھرتے پر طویل المدت دوستی بڑھانے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن