امر اجالا
اصغر علی شاد
shad _ asghar@yahoo.com
ایک طرف بھارت میں جوہری سامان کی چوری کے واقعات روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں جس کا تذکرہ یو این میں پاکستانی مندوب منیر اکرم نے اپنی تقریر میں کیا ہے۔ اس تفصیل کے مطابق صرف ایک برس میں بھارت میں جوہری مواد کی چوری کے کم از کم 3واقعات پیش آئے ہیں اور اس ضمن میں ایک سو ملین ڈالر کا جوہری مواد پکڑا گیا ہے۔ دوسری جانب چند روز بعد ایس سی او سربراہ اجلاس منعقد ہو رہا ہے ایسے میں مبصرین کے مطابق کسے معلوم نہیں کہ SCO ایک سیاسی، اقتصادی، بین الاقوامی سلامتی اور دفاعی تنظیم ہے جسے چین اور روس نے 2001 میں قائم کیا تھا۔یاد رہے کہ یہ جغرافیائی دائرہ کار اور آبادی کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی علاقائی تنظیم ہے، جو ایشیا کے تقریباً 80% رقبے اور دنیا کی 40% آبادی پر محیط ہے۔علاوہ ازیں 2023 تک، یہ دنیا کی مجموعی جی ڈی پی کا تقریباً 32 فیصد ہے۔یہاں اس امر کا تذکرہ بیجا نہ ہوگا کہ 14تا 16اکتوبر کو ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہ اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہو رہا ہے اور ظاہر سی بات ہے کہ اس کی میزبانی پاکستان کر رہا ہے۔ سربراہی اجلاس میں شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک بشمول بھارت، پاکستان، چین، روس، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، ازبکستان اور ایران کے سرکاری اہلکار شرکت کریں گے۔ تفصیل اس معاملے کی کچھ یوں ہے کہ سربراہی میں مندرجہ ذیل پہلوو¿ں کو خاص طور پر اجاگر کیا جائے گا جس میں پاکستان کا اقتصادی اور علاقائی رابطہ، پاکستان کی سفارتی مطابقت اور ساکھ، قابل اعتماد سیکورٹی، پاکستان کو غیر محفوظ اور ناکام ریاست کی تصویر کشی کرنے والے دشمن عناصر کے منفی پروپیگنڈہ کو بے نقاب کرنا شامل ہے۔ سربراہی اجلاس میں موجود عالمی رہنما رکن ممالک کے درمیان تعاون کو مزید بڑھانے اور بین الحکومتی ادارے کے بجٹ کو بہتر بنانے کے لیے تنظیمی فیصلے اپنائے جائیں گے اور شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں معیشت، تجارت، ماحولیات، سماجی و ثقافتی روابط کے شعبوں میں تعاون پر تبادلہ خیال کے ساتھ ساتھ تنظیم کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے گا۔ علاوہ ازیں سربراہی اجلاس رکن ممالک کے درمیان کثیر جہتی تعاون کو بڑھانے پر توجہ مرکوز کرے گااور علاقائی اور بین الاقوامی اہمیت کے اہم موضوعات پر بات چیت کرے گا۔ اسی تناظر میں یہ بات بھی اہم ہے کہ اس اجلاس میں دہشت گردی کا مقابلہ کرنے اور علاقائی استحکام کو بڑھانے سمیت سیکورٹی کے خدشات کو دور کیا جائے گا۔مبصرین کے مطابق سربراہ اجلاس کا مقصد علاقائی استحکام کو مضبوط بنانا اور جاری تنازعات کو حل کرنا ہے۔یاد رہے کہ SCO کے رکن ممالک کے درمیان مالی، اقتصادی، سماجی، ثقافتی، اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر تعاون پر توجہ مرکوز کرنے والی وزارتی میٹنگز اور سینئر حکام کے اجلاس ہوں گے۔اس تمام صورتحال کا جائزہ لیتے غیر جانبدار سفارتی حلقوں نے رائے ظاہر کی ہے کہ یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ 10برس قبل یعنی 2014میں چینی صدر جب پاکستان کے دورے پر آنے والے تھے تب بھی بانی پی ٹی آئی کی ہدایت پر اجتجاج اور مظاہروں کا لامتناہی سلسلہ شروع کیا گیا اور 126دن تک اسلام آباد میں دھرنا دیا گیا اور اس دوران ہر قسم کا طوفان بدتمیزی برپا کیا جاتا رہا اور یہ سلسلہ اتنا بڑا تھا کہ چینی صدر کے دورے کو اخری لمحے میں منسوخ کرنا پڑا جس کے نتیجے میں پاکستان کو اقتصاد ی محاذ پر ناقابل تلافی نقصان پہنچا اور سی پیک جیسا منصوبہ غیر معمولی تعمیر کا شکار ہوا البتہ پاک چین مثالی دوستی کی وجہ سے اپریل 2015میں چینی صدر پاکستان آئے اور یوں سی پیک کی تعمیر و ترقی کا سفر نئے سرے سے شروع ہوا۔ اب شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس سے عین پہلے جس طور پی ٹی آئی نے جو احتجاج کی روش شروع کر رکھی ہے اسے کوئی بھی ذی شعور معمول کی بات قرار نہیں دے سکتا۔صاف ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ بدنیتی پر مبنی پاکستان مخالف حلقوں کی شہ پر ہورہا ہے اور جس طرح بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کو پی ٹی آئی نے احتجاج میں باقاعدہ شرکت کی دعوت دی ہے اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔نہ صرف بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر پاکستان کے خلاف اپنے بیانات کی وجہ سے مشہور ہیں بلکہ یہ پاکستان دشمنی انہیں اپنے والد کی طرف سے ورثے میں ملی ہے۔یاد رہے کہ جے شنکر کے والد کے سبرامنیم کو بھارتی ایٹمی ڈاکٹرئن کا خالق سمجھا جاتا ہے علاوہ ازیں 1999میں بھارت نے جو گارگل ریو¿ کمیٹی بنائی تھی اس کے چیئرمین جے شنکر کے والد ہی تھے۔اس تمام تناظر میں سنجیدہ حلقوں نے توقع ظاہر کی ہے کہ انتشاری ٹولے کا حالیہ رویہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ اس کی اپنی ایک تاریخ ہے جسے محتاط ترین الفاظ میں بھی پاکستان دشمنی سے ہی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ایسے میں امید کی جانی چاہیے کہ ملک و قو م کے سبھی حلقے ان پاکستان دشمن عناصر کے طرز عمل کو پوری طرح سمجھیں گے اور ان کے مذموم عزائم کو کسی صورت کامیاب نہیں ہونے دیں گے اور شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس ہر حوالے بہتر نتائج کا حامل ہوگااور اس سے پاکستان کی ترقی اور اقتصادی اور معاشی صورتحال کو تقویت پہنچے گی انشااللہ