جمعة المبارک‘ 7 ربیع الثانی 1446ھ ‘ 11 اکتوبر 2024

ڈاک کا عالمی دن منایا گیا‘ خط کی اہمیت آج بھی برقرار ہے۔
 ایک وقت تھا جب پوری دنیا پر عملا محکمہ ڈاک کا راج تھا۔ کوئی اطلاع یا پیغام اسی کی معرفت سے ملتے تھے۔ نصف ملاقات کرانے کا اعزاز اسے حاصل تھا۔ بڑے چھوٹے دن خوشی یا غم کی تقریب کے پیغامات ڈاک کی بدولت ہی دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک شہروں اور دیہات تک پہنچتے۔ کیا وقت تھا، لوگ ڈاکیے کی راہ تکتے‘ خط لکھنے والوں اور پڑھنے والوں کی عزت ہوتی‘ چاہنے والوں کی اسکے ذریعے آدھی ملاقات ہوجاتی۔ اسی لئے کہا جاتا تھا ”خط پڑھ کے تیرا آدھی ملاقات ہوگئی“۔ اگر ناراضگی کے باعث خطوط کے جواب نہ ملنے پر بے چینی بڑھ جاتی تو بےساختہ
 نامہ بر توہی بتا تونے تو دیکھے ہونگے
کیسے ہوتے ہیں وہ خط جن کے جواب آتے ہیں
 والا شعر لبوں پر آ جاتا۔لوگ اپنوں کے خطوط کے منتظر رہتے۔روزانہ لاکھوں خط یہاں سے وہاں جاتے آتے تھے۔ چچا غالب بھی خطوط لکھنے اور پڑھنے کے دیوانے تھے۔ ان کو کتابی شکل میں جمع کیا گیا ہے جو آج بھی شامل نصاب ہیں۔ دیگر کئی لوگوں کے خطوط کو بھی کتابوں کی شکل میں یکجا کیا جا چکا ہے۔ غالب سے منسوب شعر ہے:
خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو
ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے
پھر وقت کچھ ایسی تیزی سے بدلا کہ اب شہر ہوں یا دیہات ڈاک خانے عنقا ہو گئے۔ یہی حال لیٹر بکسوں کا ہے۔ جن پر خطوط نکالنے کے اوقات تک درج ہوتے تھے اب وہ خال خال ہی نظر آتے ہیں۔۔ پہلے ٹیلی فون آیا‘ پھر موبائل اور انٹرنیٹ نے تو خط اور ڈاک کا نام ہی ذہنوں سے فراموش کردیا۔ ان سے جڑی ہر اچھی بری یاد کو بھی باقی رہنے نہیں دیا گیا۔ اب نئی نسل رجسٹرڈ خط ، پوسٹ کارڈ‘ سادہ خط‘ ٹیلی گرام‘ بے رنگ خط یا جوابی خط کے تصور سے ہی آشنا نہیں رہی۔ مگر سرکاری و کاروباری معاملات کی ترسیل کیلئے آج بھی ڈاک کا ہی سہارا لیاجاتا ہے۔ مگر محکمہ ڈاک کا وہ سنہری دور آہستہ آہستہ ذہنوں سے فراموش ہو رہا ہے اور ساتھ ہی یہ محکمہ بھی آہستہ آہستہ حکومتی توجہ کھو رہا ہے۔ اور عوام کی توجہ سے بھی کیونکہ خط کے لفافے اتنے مہنگے ہو چکے ہیں کہ لوگ خریدنے سے اجتناب پر مجبور ہیں۔ 
پنجاب میں مچھر بھگاﺅ‘ ڈینگی مکاﺅ مہم شروع‘ سینکڑوں مریض ہسپتالوں میں داخل۔
موسم تبدیل ہوتے ہی یہ موذی سالا چٹکی بھر مچھر پر پرزے نکالنا شروع کر دیتا ہے۔ ملیریا سے ابھی تک پوری طرح جان نہیں چھوٹی تھی کہ ڈینگی نے آکر آفت مچا دی۔ یہ خطرناک وباءکی صورت اختیار کر گیا ہے اور اب ایک نیا خوفناک ڈین ٹو ڈینگی وائرس کے نام سے خوف وہراس پھیلا رہا ہے۔ خدا خیر کرے‘ لگتا ہے ابھی ڈینگی کے امتحان اور بھی ہیں۔ ہسپتالوں میں رش لگا ہوا ہے‘ ملک کے مختلف حصوں میں اسکے پھیلنے کی رفتار بڑھ رہی ہے‘ علاج اپنی جگہ‘ مگر اس کا سب سے بہتر حل مچھروں کی افزائش کو روکنا ہے۔ اس کیلئے لوگوں کو خود پانی جمع ہونے سے روکنا ہوگا۔ جمع شدہ پانی میں ادویات چھڑک کر مچھروں کو تلف کریں‘ یا مٹی اور ریت ڈال کر اسے خشک کریں۔ سڑکوں پر گھروں میں‘ بازاروں میں‘ پارکوں میں کہیں بھی پانی کا جمع ہونا مچھروں کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ حکومتی سطح پر پہلے فوری طور پر جگہ جگہ فوگ سپرے اور ادویات کا سپرے کیا جاتا تھا‘ پانی کو خشک کرنے کا بندوبست ہوتا تھا۔ پھر نجانے کیوں اس سے لاپروائی برتی جانے لگی۔ اب پھر ڈینگی کے جان لیوا حملوں نے سب کو پریشان کر دیا ہے۔ اسکے تدارک کیلئے ملک میں انتظامیہ کو متحرک کیا جارہا ہے۔ حکومت پنجاب نے خاص طور پر اس سلسلے میں محکمہ صحت اور ڈینگی سے بچاﺅ کے یونٹوں کو متحرک کر دیا ہے جو مچھر مکاﺅ اور ڈینگی بھگاﺅکے نئے عزم کے ساتھ کام کریں گے۔ ورنہ ہیلتھ ایمرجنسی نافذ کرنا پڑے گی۔ اب دیکھتے ہیں یہ سالا بھر چٹکی بھرمچھر جیتتا ہے یا گبر سنگھ جیسا پہلوان نما محکمہ۔ مقابلہ تو لگتا ہے اس بار سخت ہوگا‘ یہ مچھر بھی سخت جان ہو چکے ہیں۔ ادویات اور حفاظتی سپرے ہو یا فوگ سپریے‘ بے ایمانی نے ان کا اثر ضائع کر دیا ہے جبکہ خالص انسانی خون پی پی کر یہ مچھر مزید توانا ہو گئے ہیں۔ 
کالعدم پی ٹی ایم کا نام نہاد جرگہ یا بجھی چتا کی چنگاریاں۔ 
بڑی مشکل سے نام نہاد پختونستان کی آگ بجھی تھی مگر ہمارے دشمن اسکی راکھ میں دبی چنگاریوں کو پھونکیں مارتے رہتے ہیں۔ آج کل یہ کام کالعدم پی ٹی ایم والوں نے بیرونی فنڈنگ اور مدد سے سنبھالا ہوا ہے۔ بھارت اور افغانستان اس مکروہ کھیل میں اسکی بھر پور سرپرستی کر رہے ہیں۔ صوبہ خیبر پی کے اور وفاق کے درمیان لڑائی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس ملک دشمن ٹولے نے پختون جرگے کے نام پر ریاست کی رٹ کو چیلنج کرتے ہوئے ریاست کے اندر ریاست قائم کرنے کی کوشش جاری رکھی ہوئی ہے۔ خیبر پی کے حکومت اس عمل سے اسے روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ الٹا اسکے کئی رہنماءاس جرگے کے صدقے واری جا رہے ہیں۔ ایمل ولی خان اور محمود خان اچکزئی کی حد تک تو چلیں انکی حمایت کا جواز ہے کہ یہ انکی شکستہ آزرو کا نیا جنم ہے۔ مگر پی ٹی آئی والے کیوں ان کا پس خوردہ چاٹنے میں سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پی ٹی آئی تو خود کو وفاقی جماعت گردانتی ہے‘ تو پھر یہ اسد قیصر‘ سمیت کئی رہنماءاس جرگے کے حق میں کیوں مرے جا رہے ہیں۔ اب یہ جرگہ دراصل خیبر پی کے میں نام نہاد پختونستان کی برباد شدہ عمارت کے کھنڈرات پر نئی عمارت تعمیر کرنے کی ریہرسل ہے۔ جہاں قومیت کے نام یہ افغانی گمراہ ٹولہ تعصب پھیلائے گا۔ ان کا ترانہ لہک لہک کر گایا اور پرچم لہرایا جائیگا۔ کیونکہ پاکستانی ترانے اور پرچم سے تو ان ملک دشمنوں کے دل جلتے ہیں جیسے کسی کی چتا بھڑکتی ہو۔ اس جرگے میں وہ اپنی ولایت کا خواب دیکھتے ہیں۔ مگر خیبر پی کے کے عوام کی اکثریت آج بھی محب وطن ہے۔ پاکستان کیلئے ہر جگہ قربانیاں دے رہے ہیں نہ وہ پہلے کسی دھوکے میں آئے نہ اب آئیں گے۔ ہاں ڈیورنڈ لائن کا خنجر اسےنہ تسلیم کرنے والوں کے سینے میں پیوست ہے وہ ابھی تک تڑپ رہے ہیں اور تاقیامت تڑپتے رہیں گے۔
کرپشن کیس میں پرویز الٰہی سے 3 کروڑ 68 لاکھ روپے ریکور کرائے‘ نیب 
نیب کا دعویٰ ہے کہ یہ رقم پنجاب کے تعمیراتی کاموں کے ٹھیکوں میں کرپشن کر کے وصول کی گئی تھی جبکہ چودھری پرویز الٰہی نے کہا ہے کہ یہ جھوٹ ہے۔ سرکاری ملازمین سے زبردستی وصول شدہ رقم میرے کھاتے میں ڈالی جا رہی ہے۔ شکر ہے کسی بہانے سے سابق وزیراعلیٰ پنجاب کا بیان تو پڑھنے کو ملا۔ وہ تو پنجاب حکومت کے جانے کے بعد مکمل خاموش ہو گئے ہیں۔ ایک بڑے بزرگ سیاست دان کی یہ خاموشی اچھی نہیں۔ انہوں نے اپنی جماعت تک جس کی محبت میں ختم کر دی اور خود اپنی ذات کو جس دوسری پارٹی میں ضم کر دیا۔ لگتا ہے انکی بے رخی نے چودھری جی کا دل دکھا دیا ہے۔ اوپر سے ان کا جانشین بھی بیرون ملک ہے‘ قریبی ساتھی اپنی کئے کی بھگت رہے ہیں۔ یوں دیکھا جائے تو عملی طور پر پرویز الٰہی کو انکے اپنے دوستوں‘ ساتھیوں نے تنہا گوشہ نشین کر دیاہے۔ ورنہ چودھری شجاعت ان سے زیادہ عمر رسیدہ ہیں‘ مگر اپنی پارٹی سمیت ملکی سیاست میں آج بھی فعال ہیں۔ بطور بزرگ سیاست دان انکی عزت کی جاتی ہے۔ کسی کی محبت میں اپنا گھر جلانا‘ اپنوں کو چھوڑنا‘ تنہائی کا باعث بن جاتا ہے جن کی خاطر انہوں نے اپنی جماعت کو فنا کر دیا۔ انہوں نے شاید پلٹ کر دیکھا بھی نہیں کہ کیا ہوا۔ ویسے بھی آج کل پی ٹی آئی والوں کو اپنی پڑی ہے۔ بانی جیل میں ہے‘ باقی رہنماﺅں کی آپس میں نہیں بنتی۔ ان پر پارٹی میں بھی تنقید ہو رہی ہے۔ بڑے بڑے دعوے کرنے والے ابھی تک کچھ نہ کر سکے۔ الٹا فضل الرحمان کے دردولت کا طواف کرتے پھرتے ہیں۔ ان حالات میں انہیں اپنے مخلص دوست کی کیا یاد آئیگی۔ خود پنجاب میں پی ٹی آئی کے رہنماءاپنے مقابلے میں کسی دوسرے کا وجود برداشت کرنے کو تیار نہیں‘ سب خود کو پنجاب کا وارث سمجھتے ہیں۔ جس تخت کے بے شمار وارث پیدا ہو جائیں‘ وہ پھر کسی کا نہیں رہتا۔ رنجیت سنگھ کے بعد تخت لاہور کا حال دیکھ لیں کیا ہوا تھا۔ بہرحال اچھا ہوا چودھری جی نے وضاحت کر دی کہ دوسروں کی ریکوری انکے کھاتے میں ڈالی گئی ہے جو غلط بات ہے۔

ای پیپر دی نیشن