وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے چیف منسٹر کلائمیٹ لیڈرشپ انٹرن شپ پروگرام لانچ کردیا۔ انہوں نے کہا ہے کہ انڈین پنجاب کے ساتھ کلائمیٹ ڈپلومیسی شروع کرنی چاہئے۔ سموگ کے اثرات دونوں اطراف میں یکساں ہیں تو خاتمے کیلئے پاکستان اور انڈین پنجاب کو یکساں اقدامات کا ا?غازکرنا چاہیے۔
سموگ کئی بیماریوں کا باعث بننے کے ساتھ ساتھ فصلوں اور درختوں پر بھی مضر اثرات ڈالتا ہے۔اس کے خاتمے کے لیے حکومت پنجاب ہر ممکن قدم اٹھا رہی ہے۔ اس کیلئے شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم پالیسیوں کی بھی ضرورت ہے۔حکومت کی طرف سے وارننگ کے بعد دھواں چھوڑ نے والے کئی بھٹے گرا دیئے گئے۔مریم نواز کی طرف سے نئی تعمیر ہونے والی سڑکوں کے اطراف میں درخت لگانے کی ہدایت کی گئی ہے۔سموگ جو صرف سردیوں کے مہینے میں نہیں بلکہ پورا سال جاری رہتا ہے۔ اس کا بارش کے ذریعے خاتمہ ہو جاتا تھا مگر اب سموگ کے خاتمے کے لیے موسلا دھار بارشوں کی ضرورت ہے۔چربی پگھلانا ،فصلوں کی باقیات کو آگ لگانا بھی بدترین آلودگی کا باعث بنتا ہے۔ وزیر اعلیٰ درست کہتی ہیں کہ بٹن دبانے سے نہیں بلکہ سموگ اجتماعی کاشوں سے ختم ہوگا۔
عالمی ادارہ صحت کےمطابق پاکستان کا شہر لاہور اور بھارت کا دارالحکومت دہلی دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شامل ہیں۔سموگ کی وجہ سے ہسپتال سانس کے مسائل والے مریضوں سے بھر جاتے ہیں۔ دنیا کے سب سے آلودہ خطے جنوبی ایشیا میں بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی سے کسی شخص کی متوقع عمر میں پانچ سال سے زیادہ کی کمی واقع ہو سکتی ہے۔پنجاب حکومت کی کاوشوں سے سموگ کاخاتمہ ممکن نظر آ رہا ہے۔اس کا فائدہ تب ہی ہوگا کہ بھارت کی طرف سے بھی ایسے ہی اقدامات کیے جائیں۔بھارت اور پاکستان کی ایک دوسرے کے ساتھ دشمنی اپنی جگہ‘ مگر موسمیاتی آلودگی سے نمٹنے کیلئے بھارت کے ساتھ ڈپلومیسی شروع کرنے کا مریم نواز کا صائب مشورہ ہے‘ بھارت کو انسانی زندگی محفوظ بنانے کیلئے پاکستان کے ساتھ یہ ڈپلومیسی شروع کرنی چاہیے۔ جب دو پڑوسیوں کے گھر کی طرف آگ بڑھ رہی ہو تو وہ دونوں مل کر اسے اپنے گھروں تک پہنچنے سے روکتے ہیں۔