اب ٹیبل سیٹ کرنا ہی پڑے گا حالات کی تپش۔ حبس ”پیٹ“ کا معاشی تناو¿ ۔ سیاسی گراوٹ کی بھوک بہت بڑھ گئی ہے روکنا تو پڑے گا ۔ کِسی ایک فریق کے بس میں نہیں۔ ایک صوبہ کی دوسرے صوبہ پر چڑھائی ۔ ایک صوبہ کی وفاق پر چڑھائی۔ ہماری یاداشت ابھی اتنی کمزور نہیں ہوئی ۔ قومی تاریخ بھری پڑی ہے ایسے سیاسی کارناموں سے۔ سیاست میں الزامات لگتے تو پہلے بھی سنے تھے کتابوں میں اور اب برسوں سے دیکھ بھی رہے ہیں اور حیران کن پہلو یہ کہ بہت جلد الفاظ پر تردید کا قلم پھیر دیا جاتا ہے معمول بن چکا ہے سُنی سنائی باتوں کو خوب بڑھا چڑھا کر آگے روانہ کر دینا پر اب تو سنگین ترین الزامات اتنے وثوق سے لگائے جاتے ہیں کہ بس؟؟ سچ اور حق کی ایک قیمت ہے اور قیمت بھی بہت بڑی مگر مکر۔جھوٹ۔ فراڈ کی قیمت نہیں۔ سزائیں ہیں جن کا تعین ہمارے احاطہ سے باہر ہے سیاست میں اختلاف کو جمہوریت کے حُسن سے تعبیر کیا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں یکسر اُلٹ ۔ عوامی خواہشات سے متصادم حالات ایک دہائی سے مشاہدہ کیے جا رہے ہیں ۔ ہماری سیاست کا مقصد ۔ جمہورت کا مفہوم محض خرید و فروخت کے علاوہ کچھ نہیں رہا۔ سیاست صرف الزاماتی شعار بنا دی گئی ہے ایسی طرز سیاست میں ملک ۔ادارے۔عوام کہیں نظر نہیں آتے۔ شائستگی ۔ ادب آداب۔ سب کچھ ملیا میٹ کر دیا گیا۔ سیاسی طریقے ذاتی دشمنیوں میں تبدیل ہوگئے کِسی کے کان پر جون نہیں رینگی۔ عامیانہ انداز۔ رعونت۔ اخلاقیات کو شرمندہ کرتی زبانیں ۔ کیا یہ جمہوریت ہمیں چاہیے ؟؟ ہر طرف تضحیک کا ماحول ہے۔ برداشت نہیں ۔ صبر نہیں ہر ایک کو تاحیات اقتدار چاہیے۔ من پسند فیصلے چاہیں۔ ہر قدم ۔ ہر فیصلہ ہرپالیسی من پسند چاہیے تو پھر ایسے ماحول میں جمہوریت کا ملبہ کھڑا رکھنے کی کیا ضرورت ہے ؟؟ شخصیات ۔ عوام ۔ اداروں کا تقدس پامال کرنا ایک دہائی سے عروج پکڑتا یہ ٹرینڈ آج ہر کِسی کا اول نمبر مشغلہ بن گیا ہے۔ تمام جمہوری اقدار۔ سیاسی اخلاقیات کے اصول و ضوابط ۔ تعلیمات اُلٹ پلٹ کر دئیے گئے ہیں اِس کے باوجود کوئی بھی ایک قدم پیچھے ہٹنے پر تیا نہیں ۔ اپنی ٹرم کا جمہوریت کے اندر رہتے ہوئے انتظار کرنے پر راضی نہیں ۔ کیا یہ افعال قابل پزیرائی ہیں ؟؟ ملک میں ہر کچھ دن بعد خانہ جنگی کی فضا پیدا کر کے ہم ”دنیا“ کو کیا پیغام دے رہے ہیں ؟؟ کیا دِکھانا چاہتے ہیں ؟؟
میرٹ کیا ہے؟ مجھے میری مطلوبہ کرسی ۔ عہدہ مل جائے تو ہر طرف میرٹ کے ڈھول برعکس تصویر میں رونا دھونا ۔ میرٹ ۔ میرٹ کے نعرے۔ یہ ہے ”ہمارا اندر“ ۔ صرف ”میں“ میرے لیے سب جائز۔ میری میز پر ہر چیز حلال (مری ہوئی مرغی بھی حلال) میرے مخالف کی میزپر حلال طریقے سے ذبح ہوا گوشت بھی حرام ۔ یہ ہے ۔ ہماری سوچ ۔ قارئین بتائیے کیا ایسی جمہوریت حلال ہے ؟؟
سڑکیں بند ۔ موبائل بند ۔انٹرنیٹ بند۔ پکڑ دھکڑ۔ لاٹھی چارج۔ پتھراو¿ ۔ مظاہرین سے زیادہ پولیس فورس۔ ہر شہر بند لوگ محصور ۔ اشیائے ضروریہ کی قلت ۔ سکول بند۔ موٹر سائیکل پر ڈبل سواری کی پابندی ۔ اطلاعات و نشریات کا لگا بندھا بیانیہ ۔ نام۔ تصویریں ۔ خبریں بند۔ یہ ہے ہمارے پیارے وطن کی تصویر۔ دھمکیاں ۔ چڑھائی کل بھی نا پسندیدہ فعل تھا آج بھی مکروہ عمل ہے۔ کتنے سالوں سے ہم یہی کلچر دیکھتے آرہے ہیں نہ اپوزیشن نہ حکومت کوئی بھی بری الذمہ نہیں ۔ کُرسی وہی ہے شخصیات کی تبدیلی عمل میں آتی ہے پر طریقے ۔ سیاسی تناو¿ ۔ سیاسی بھاو¿ تاو¿ ۔ خریدو فروخت صرف موجود والوں کے لیے جائز جبکہ ”کُرسی“ سے اُترنے کے بعد ناجائز ۔ یہ ہے ہماری ”جمہوریت“ ۔
کِسی نے بھی اپنا حق نمائندگی ادا کرنے کی نیت نہیں کی عمل۔ تو سوچا ہی نہیں گیا کسی بھی دور میں۔ پچھلے دنوں دنیا بھر میں ”جمہوریت کا عالمی دن“ منایا گیا۔ جمہورت کا مطلب عوام کے لیے اقدامات ۔ ووٹرز سے لیے گئے حق نمائندگی کا ایمانداری سے تحفظ ۔ ”ووٹرز“ سب سے پہلے ۔ اپنے ووٹ ہندگان کی سلامتی ۔ معاشی آزادی ۔ معاشی سرگرمیوں میں وسعت ۔ اداروں کا احترام ۔ ملکی سلامتی ۔ استحکام اولین ترجیح ۔ آزاد عدلیہ ۔ بروقت اور انصاف کے تقاضوں کو پُورا کرتے عادلانہ فیصلے ۔ آزادی حق ہر وقت آزاد ۔ ایسا حق نہ حزبِ اختلاف میں نہ حکومت میں کبھی بھی قدغن کا شکار نہ ہو۔
مگر ہماری ”75 سالہ“ تاریخ میں شاذ ہی عوامی مسائل کے حل کی جانب کوششیں مخلص نظر آتی ہیں۔ ہر کوئی مخالف کو نیچا دکھانے میں مصروف ۔ بارہا لکھا الزامات کا جواب حکومتی کارکردگی ہوتا ہے پر ہر کوئی حکومت میں رہ کر اپوزیشن جیسے اعمال کرتا رہا ۔ اگر لو گ نہیں آئے۔ تو پھر ہزاروں ٹرک کھڑے کر کے راستے بند کرنے کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے۔ عوام کی جان و مال کا تحفظ از حد ضروری ہے مگر ذرا سا احتجاج کا اعلان ہوتا ہے ”اپوزیشن“ کے مقاصد کو ہر حکومت برسوں سے جاری ایسے ہی طریقوں سے زیادہ کامیابی دلا دیتی ہے کوئی بھی خود کو بدلنے کے لیے تیار نہیں ۔ قرضوں کے انبار تلے دبتے جا رہے ہیں مگرتمام فریقین محض سیاسی انتقام ۔
ذاتی اقتدار کی ہوس میں گردن تک قوم کو پھنسانے کے باوجود پیچھے ہٹنے کو آمادہ نہیں ہیں ۔ آخر یہ ”جنگ“ کہاں لے جائے گی ؟؟ معمول ہے ذرا سا مظاہرہ ۔ جلسہ کی خبر نشر ہوئی انتظامی ہاتھ پاو¿ں پھول گئے ۔غیر ضروری گھبراہٹ کا ماحول ۔ گرفتاریاں ۔ رکاوٹیں ایسے مناظر نشر کرنا گویا ”برقیاتی چینلز“ کا مذہبی فریضہ بن جاتا ہے وہ فضا بنا دی جاتی ہے گویا ”قیامت“ آنے والی ہے سب کو بخوبی علم ہے ایسی صورتحال کِسی کے بھی فائدہ میں نہیں پھر بھی ؟؟ سوچئیے ”بیرونی دنیا“ ہمارے متعلق کیا سوچتی ہوگی ؟
”دھرنوں ۔ احتجاج کا تدارک“
”آئینی عدالت “ کے قیام میں کیا مضائقہ ہے ؟ کئی دہائیوں سے عدالتوں (بالخصوص کچھ سالوں سے) پر سیاسی و آئینی مقدمات کا بوجھ بہت بڑھ گیا ہے۔ عوام کے مقدمات جائز حقوق کے حصول میں متذکرہ بالا غیر ضروری انبار تلے دبے ہوئے ہیں اچھا نہیں بوجھ بٹھ جائے گا ہاں آئین میں من چاہی ترامیم کا سلسلہ رکنا ضروری ہے ایسی ترامیم نہیں ہونی چاہیں ۔ حکومت کو چاہیے کہ لازمی ترمیم یہ کر دے سڑکوں پر دھرنوں ۔ احتجاج ۔ ریلیاں نکالنے پر مکمل پابندی ۔ ساتھ میں کوئی بھی حکومت راستوں کو بند نہ کرے یہ ترمیم بھی ضروری ہے۔ حکومت احتجاج ۔ جلسوں کے لیے ہر شہر میں ایسے علاقے مختص کر دے جہاں سے عوام کو کوئی تکلیف نہ ہو۔
”باہمی گفتگو زیادہ مناسب ہے “
سیلاب کے لیے امداد ”400ملین ڈالرز“کے غلط استعمال کے الزامات کو امریکہ کی طرف سے سنجیدگی سے لینے کا اعلان ۔ سچ ہے یا جھوٹ کتنی بڑی غلطی کر بیٹھتے ہیں ہم۔ جب ہر اہلکار ۔ حکومت رابطہ میں ہے اتحادی ہیں دو بدوبا ت میں رکاوٹ نہیں یہ تو ویسا ہی کام ہوا پی آئی اے پائلٹس کی جعلی ڈگری کے بیان جیسا ۔
”ہمت کارڈ“
پنجاب حکومت کا ”ہمت کارڈ“ لانچ ۔ قابل تعریف جذبہ کے ساتھ ۔بات وزیر اعلیٰ پنجاب کی واقعی درست ہے۔ عوام کے وسائل کو اُن کے مسائل حل کرنے پر لگائیں نا کہ آئے دن احتجاج ۔ حملہ آور ہونے پر ۔ یہ روش کسی کے لیے بھی نہ درست تھی نہ ہے اور نہ ہوگی۔