شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں

Oct 11, 2024

عاطف محمود ۔۔ مکتوب آئرلینڈ

شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کا 2024ء کا سربراہی اجلاس، جو رواں ماہ 15 اکتوبر سے پاکستان میں شروع ہو رہا ہے، ہمارے لئے بین الاقوامی سفارتکاری کی تاریخ میں ایک نہایت اہم موقع ہے۔ میزبان ملک کے طور پر، پاکستان علاقائی تعاون کو فروغ دینے اور عالمی سطح پر درپیش مسائل کے حل کے لیے ایک اہم کردار ادا کرے گا۔ یہ باوقار اجلاس، جس میں آٹھ رکن ممالک اور کئی مبصر ممالک کے رہنما شامل ہوں گے، یوریشیا بھر میں امن، سلامتی، اور اقتصادی ترقی کے فروغ کے لیے ایک اہم سنگ میل ثابت ہو گا۔ ایس سی او کا قیام 2001ءمیں عمل میں آیاتھا جس کا مقصد رکن ممالک کے درمیان باہمی اعتماد اور دوستانہ تعلقات کو فروغ دینا ہے۔ اس تنظیم کے بنیادی مقاصد میں سیاست، تجارت، معیشت، اور سائنس کے شعبوں میں موثر تعاون کو فروغ دینا، اور ساتھ ہی ساتھ ثقافتی تبادلوں کو بھی ترجیح دینا شامل ہے۔ یہ تنظیم علاقائی امن، سلامتی، اور استحکام کی کوششوں کو تقویت دیتی ہے، جس کے باعث یہ عالمی جغرافیائی سیاست میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔
پاکستان، جو 2017ءمیں شنگھائی تعاون تنظیم کا مکمل رکن بنا، 2024ءکے اجلاس کو تنظیم کے مقاصد کے لیے اپنے عزم کا مظاہرہ کرنے کے ایک موقع کے طور پر دیکھتا ہے۔ اس اجلاس میں پاکستان علاقائی سطح پر انفراسٹرکچر اور معاشی روابط کو مضبوط کرنے پر توجہ دے گا، خاص طور پر ایسے منصوبوں کے ذریعے جیسے چین-پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC)، امن و امان کو فروغ دینے اور دہشت گردی، انتہا پسندی، اور علیحدگی پسندی جیسے سکیورٹی چیلنجز کا حل تلاش کرنے کے لیے مل کر کام کرنے پر زور دیا جائے گا، تاکہ ایک مستحکم اور پرامن ماحول کو یقینی بنایا جا سکے۔تجارت اور سرمایہ کاری کے مواقع کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ رکن ممالک کے درمیان معاشی ترقی کی رفتار بڑھانے کی کوشش کی جائے گی تاکہ باہمی افہام و تفہیم اور تعاون کو فروغ دیا جا سکے۔ 
2024ءکا سربراہی اجلاس کئی اہم مسائل پر روشنی ڈالے گا، جن میں رکن ممالک کے متنوع مفادات اور ترجیحات کی عکاسی ہوگی۔ بنیادی توجہ دہشت گردی، انتہا پسندی، اور علیحدگی پسندی سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کوششوں کو بڑھانے پر مرکوز ہوگی۔ اجلاس میں انٹیلی جنس کے تبادلے، انسداد دہشت گردی کی حکمت عملیوں، اور مشترکہ سکیورٹی اقدامات پر تبادلہ خیال کیا جائے گا تاکہ ایک مستحکم اور محفوظ خطے کا قیام ممکن ہو۔ اقتصادی تعاون ایک مرکزی موضوع ہوگا، جس میں تجارتی سہولت، سرمایہ کاری کے مواقع، اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی پر زور دیا جائے گا۔ رابطے کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات، جیسے کہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (BRI) اور ڈیجیٹل سلک روڈ، پر روشنی ڈالی جائے گی۔ ماحولیاتی چیلنجوں کا مقابلہ کرنا پائیدار ترقی کے لیے نہایت اہم ہے۔ رکن ممالک موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے، قابل تجدید توانائی کو فروغ دینے، اور ماحولیاتی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے مشترکہ کوششوں پر تبادلہ خیال کریں گے۔
ثقافتی اور انسانی تبادلے کو فروغ دینا SCO ممالک میں ایک کمیونٹی کے احساس کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ تعلیمی، ثقافتی، اور عوامی سطح کے تبادلوں کو فروغ دینے کے اقدامات تلاش کیے جائیں گے، جس کا مقصد دوستی اور تعاون کے رشتے کو مضبوط بنانا ہے۔ ایس سی او اجلاس کی میزبانی پاکستان کے لیے چیلنجز اور مواقع دونوں پیش کرتی ہے۔ اعلیٰ سطح کے مندوبین کی حفاظت کو یقینی بنانا اور ایک محفوظ ماحول کو برقرار رکھنا ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ اس پیمانے کے بڑے ایونٹ کی لاجسٹکس کو ہم آہنگ کرنا تفصیلی منصوبہ بندی اور عمل درآمد کا متقاضی ہے۔ رکن ممالک کے متنوع مفادات اور ترجیحات کو متوازن کرنا اعلیٰ سفارتی مہارتوں کی ضرورت ہے۔یہ سربراہی اجلاس پاکستان کو ایک پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے جس کے ذریعے وہ عالمی سطح پر اپنی حیثیت کو مضبوط کر سکتا ہے اور علاقائی تعاون میں اپنی قیادت کا کردار نمایاں کر سکتا ہے۔ مضبوط معاشی روابط اور سرمایہ کاری کے بڑھتے مواقع پاکستان کی معاشی ترقی کیلئے محرک ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس اجلاس کی میزبانی خطے میں ثقافتی ہم آہنگی کو فروغ دے گی اور سماجی روابط کو مضبوط کرے گی۔
پاکستان تحریک انصاف رواں ماہ 15 اکتوبر سے شروع ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہی اجلاس کے دوران اسلام آباد میں احتجاج کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ اس فیصلے نے کافی قیاس آرائیوں کو جنم دیا ہے، خاص طور پر اس لیے کہ ایس سی او اجلاس ایک انتہائی اہم عالمی اجلاس ہے جس میں بڑی بین الاقوامی شخصیات شرکت کریں گی۔ جو لوگ تاریخ سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ کوئی اتفاق نہیں ہے۔ پی ٹی آئی نے 2014ءمیں اسی طرح کا احتجاج منظم کیا تھا جس کے نتیجے میں چینی صدر کا دورہ منسوخ ہوا تھا اور پاکستان کو 126 دن کے طویل احتجاج کی وجہ سے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری سے محرومی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی کے احتجاج کے پیچھے سیاسی مقاصد کارفرما ہیں جن کا مقصد پاکستان کی معاشی ترقی میں خلل ڈالنا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی یہ کوششیں دراصل پاکستان کی معاشی ترقی کو روکنے کے لیے ہے کیونکہ اگر ملک کی معیشت ترقی کرتی ہے تو پی ٹی آئی کی سیاسی حیثیت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت اور عدلیہ پر دباﺅ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ اس کی قیادت کے خلاف جاری کرپشن کیسوں کو نظرانداز کیا جا سکے، اور وہ سمجھتے ہیں کہ اگر حکومت مہنگائی، بے روزگاری اور کرپشن جیسے اہم مسائل کو کامیابی سے حل کرتی ہے تو پی ٹی آئی کے اگلے عام انتخابات میں جیتنے کے امکانات کم ہو جائیں گے۔ پی ٹی آئی کی حکمت عملی معاشی ترقی میں خلل ڈالنے اور عدلیہ کو دباو¿ میں لا کر اپنے لئے سازگار فیصلے حاصل کرنے کی ہے۔ 9 مئی کا واقعہ اس کی ایک مثال ہے جب پی ٹی آئی نے ریاستی اداروں کو نشانہ بنایا، جو کہ 2014ءکی ان کی کارروائیوں کی یاد دلاتا ہے جب انہوں نے سرکاری ٹیلی ویژن اور دیگر سرکاری عمارتوں کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔
2024ءمیں پاکستان میں ہونے والا ایس سی او سربراہی اجلاس ایک اہم موقع ہے جو علاقائی تعاون کو فروغ دینے اور عالمی مسائل کے حل کے لیے اہم ثابت ہو سکتا ہے۔ اس اجلاس کی میزبانی سے پاکستان کی بین الاقوامی ساکھ کو مضبوط کرنے کا موقع ملے گا اور شنگھائی تعاون تنظیم کے اہداف میں اہم کردار پاکستان کے حصے میں آئے گا۔

مزیدخبریں