شاعر اگر حقیقی ہو تو اس کے اشعار میں ایسی ایسی پیش بینی اور پیش گوئی ملتی ہے جو سیمسن کارٹون کو بھی نصیب نہیں ہوتی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کئی دفعہ اس کی اہمیت کا احساس خود شاعر کو بھی نہیں ہوتا۔ میرا اپنا ایک شعر جو میرے شعری مجموعے ، ” مزاحمت کریں گے ہم “ میں درج ہے ، اس وقت عطاءہوا جب جنرل باجوہ اور عمران خان بانہوں میں بانہیں ڈالے قوم کو پیغام دے رہے تھے کہ آخر کار پاکستان میں سول حکومت اور اسٹیبلشمینٹ ایک پیج پر آ ہی گئے۔ میں نے سوچا کہ یہ تو اکیلے اکیلے ہی مان نہیں تھے اب مل گئے ہیں تو کیا بنے گا۔ شاید اسی ادھیڑ بن میں جس شعر کی آمد ہوئی آپ بھی سن لیجئیے۔۔۔
اب ایک پیج پہ آئے ہیں حکمراں مِرے
تمہارا اللہ ہی حافظ ہے حکمراں مرے
اس دن کے بعد جیسے جیسے دن گزرے پاکستان نئے سے نئے عذاب کا شکار ہوا۔ اب اگر عمران خان سے سوال کیا جائے کہ جس اسٹیبلشمینٹ کو آج آپ الزام دیتے تھکتے نہیں اسی کے کاندھوں پر بیٹھ کر آپ مسند ِ اقتدار تک تشریف لائے تھے۔ آپ اتنے ہی عظیم لیڈر ہیں کہ نہ آپ اس وقت سیاسی صورتحال کا درست تجزیہ کر سکے نہ تب آپ کو کچھ سمجھ آئی جب آپ کو گھر بھیجنے کی تیاری کی جا رہی تھی۔ بقول آپ کے عوامی سونامیوں کے ریلے آپ کے ایک اشارے پر سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور ایسا ہوا بھی ہے لیکن پچھلے دو سالوں سے ان بیچاری کمزور ، غریب سونامیوں کو اپنی غلط حکمت عملی اور کمزور پلاننگ کے باعث ک±ٹ پڑوا پڑوا کے ادھ موا¿کر کے رکھ دیا ہے۔
حد تو یہ ہے کہ آپ نے ملک میں سیاسی انتشار کا مظاہرہ کرنے کے لیے زیادہ تر ایسی ہی تاریخوں کا انتخاب کیا جب پاکستان میں کوئی نہ کوئی بین الاقامی سرگرمی طے تھی۔ آپ کے نزدیک دنیا کو یہ پیغام جانا ایک تعمیری اور مثبت عمل ہےکہ پاکستان سیاسی بحران کا شکار ہے۔ کیونکہ آپ کا تمام تر فوکس اقتدار کے حصول پر ہے جس کے لیے ملک کو کچھ بھی ہوجائے اقتدار واپس آنا چاہیے۔ وہ اقتدار جو آپ نے جنرل باجوہ کی مدد سے حاصل کیا اور جنرل باجوہ کی ہی مدد سے گنوایا۔ آپ کے اقتدار سے باہر نکلنے سے لیکر آج کے دن تک آپ نے عوام کو سڑکوں پر لا لا کر ان کا بھرکس نکلوا دیا ہے لیکن ٹکے کا فائدہ حاصل نہیں کر سکے۔ اس لیے کہ نہ آپ کے پاس کوئی نظریہ ہے نہ ہی کوئی سیاسی حکمت عملی۔ اسلامی ٹچ والی بات پہ شاید میرے جیسے لوگ بھی آپ کے ہاتھوں بیوقوف بن جاتے مگر ہمیں تو پتہ ہے آپ کی پارٹی کے کتنے لوگ نظریاتی بنیادوں پر دین کے رستے پہ چلنے والے ہیں یا آپ نے اپنے کارکنوں کی کتنی نظریاتی و دینی تربیت کی ہے۔ آپ نے چھبیس سال اقتدار سے پہلے کے اور پانچ سال اقتدار میں آنے اور پھر جانے سے اب تک سوائے تقریروں کے کچھ نہیں کیا۔ آپ کے فالوورز کو گالیاں دینے کے سوا کچھ نہیں آتا۔
اس کے علاوہ آپ کے کریڈٹ پہ صرف ہیلتھ کارڈ ہے جو سرکاری ہسپتال نہ بنا پانے کی کمزوری کو چھپانے کیلئے آپ نے کارپوریٹ انشورنس کو فائدہ دیتے ہوے یہ راستہ نکالا تھا۔ یہ بھی اچھی بات ہے لیکن سرکاری ہسپتال بنانے کی بجائے انشورنس دینا روزگار مہیا کرنے کی بجائے بھیک دینے جیسا ہے۔
آئے دن جلسے جلوس کا تماشا کرکےانسانی جانوں سے کھیلنے کا گھناونا فعل آپ کو چھوڑنا ہوگا کیونکہ آپ اب تک اس سے کوئی نتیجہ نکالنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ آپ نے عوامی طاقت کو بے توقیر کرکے دنیا بھر کے مظلوم عوام کو انقلاب سے مایوس کرنے کی جو ڈیوٹی سنبھال رکھی ہے اس پر آپ کو تاریخ کے سامنے جوابدہ ہونا پڑے گا۔ آپ کے جلسے جلوسوں میں پی ٹی آئی کا کوئی معصوم نوجوان شہید ہو یاامن و امان قائم رکھنے کی ڈیوٹی پر نکلا ہو کوئی سپاہی جام شہادت نوش کرے، جنازے تو دونوں طرف سے پاکستان ہی کے گھروں سے اٹھتے ہیں۔ یہ بات آپ نے پوری دنیا کو دکھا دی ہے کہ آپ کو نظریے کا کچھ پتہ ہے نہ سیاست کی کچھ فہم۔لیکن یہ بھی بتائیے کہ آپ کےاس سیاسی لڑکپن کا خمیازہ عوام کیوں بھگتیں؟۔ آپ نے پورے سیاسی کیرئیر میں پہلے دن سے ساتھ چلنے والوں کی جس طرح ناقدری کی اور پارٹی میں وہی مفاد پرست اور فصلی بٹیرے بھرتی کیے جن کے خلاف آپ نے پارٹی بنائی تھی۔ اتنی دیدہ دلیری تو کہیں دیکھنے میں نہیں آئی۔ آپ کو پتہ بھی ہے کہ اب تک کتنے پاکستانی گھرانے آپ کی بے نظریہ اور بے سمت سیاست کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔
آپ کے جلسے جلوسوں کی وجہ سے کاروبار بند اور ٹرانسپورٹ معطل ہوتی ہے۔ سڑکیں کنٹینروں سے اور ذہن خدشات سے بھر جاتے ہیں۔ انٹرنیٹ پر پابندی الگ سے زندگی کی تعطلی کا باعث بن جاتی ہے اور نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلتا۔ یا تو اب تک ایک فیصد بھی کوئی بہتری نظر آئی ہو تو چلو کچھ امید ہی لگا لیتے۔ اسمبلیاں توڑنے اور حکومت سے باہر نکلنے سے لیکر آج کی تاریخ تک آپ کا ہر عمل بے نتیجہ نکلا ہے۔ جناب کپتان اس مظلوم ملک اور اس کے عوام پر ترس کھائیے اور ہمیں زندہ رہنے دیجئے۔