حقائق کچھ یوں بھی ہے

Oct 11, 2024

رابعہ رحمن

پاکستان کے بارے میں عالمی سطح پر جوتاثرات چکی ہے اس میں اور حقیقت میں زمین آسمان کا فرق ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم خود اس شبیہح کو بدلنا نہیں چاہتے۔ ہمارے صرف تین چار بڑے بڑے مسائل ہیں اگر وہ مسائل حل ہوجائیں تو بہت جلد یہ پرسیپشن غلط ثابت ہوجائے۔ دنیامیں اس وقت ساٹھ اسلامی ممالک ہیں اور پاکستان اس پوزیشن میں ہے کہ ان سب کی قیادت کرے اور پاکستان کا مستقبل ان سب سے روشن ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم جلد مایوس ہوجانے والی قوم ہیں، پاکستان سے ہماری یہ توقع کہ آزادی کے صرف چندسال بعدیہ عالمی طاقتوںکی صف میں کھڑاہوجاتا،یہ اس ملک کے ساتھ ناانصافی ہے، ہمیں اس ملک کو تھوڑا وقت دینا چاہیے، یہ ملک اپنی عمر اور قد سے بڑھ کر ترقی کررہاہے، ہمارا دفاع ناقابل تسخیرہے، ہم ایٹمی ممالک کی صف میں کھڑے ہیں اورہمارے پاس دنیا کی بہترین فوج موجود ہے، جنوبی ایشیا کا کوئی مسئلہ پاکستان کی شمولیت کے بغیر حل نہیں ہوسکتا اورہم امریکہ و روس دونوں عالمی طاقتوںکےلئے مجبوری بن چکے ہیں اور مستقبل کی عالمی طاقت چین ہم سے بناکر رکھنا چاہتاہے۔ دنیا کے ساٹھ اسلامی ممالک کا کوئی مسئلہ ہو تودنیا کی نگاہیں ہمارے طرف اٹھتی ہیں، ایران سعودی تنازع ہویا افغانستان کا مسئلہ ہو دنیا بہر حال ہماری طرف دیکھتی ہے۔ دہشت گردی اس وقت دنیا کےلئے سب سے بڑا چیلنج ہے لیکن پاکستان نے کافی حد تک اس مرض پر قابوپانے کی کوشش کی ہے اورجانوں کا بے بہا نذرانہ بھی پیش کیاہے، ہم اس مرض سے بچ نکلے ہیں لیکن دنیا ابھی تک اس چیلنج سے نمٹنے کی کوششوںمیں لگی ہوئی ہے، برطانیہ جیسا ملک دہشت گردی سے نمٹنے کےلئے ہم سے مدد کا طلبگار ہے۔ آپ مانیںیانامانیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ پاکستانی معاشرہ بڑی تیزی سے اعتدال کی جانب بڑھ رہاہے ہمارے ہاںماضی میں شدت پسندی کا جو رجحان تھا وہ کافی حد تک کم ہواہے، لوگ ایک دوسرے کو برداشت کرنے لگے ہیں ایک دوسرے کی مساجد میں بلاخوف وخطر چلے جاتے ہیں اورہماری نوجوان نسل نے سرکاری اور پرائیویٹ اداروںمیں نیا خون بھردیاہے، پرانے اور بوڑھے لوگ اداروں سے نکل رہ ہیں اور نئی نسل اپنی ذمہ داریاں سنبھال رہی ہے،یہ نوجوان نسل اپنے عہد کے مسائل کو بھی جانتی ہے اور ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنے کی بھرپور صلاحیت بھی رکھتی ہے اس لئے اب پٹوارخانے سے پارلیمنٹ تک اور صحت سے لے کر تعلیم تک ہرجگہ تبدیلی نظرآرہی ہے اوریقینا پاکستان نے اتنے سالوںمیں اپنی عمر اور اپنے قد سے بڑھ کرکامیابیاں حاصل کی ہیں اورآج کل جو پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز نے جس طرح سے مختلف ایجنڈوں پر کام کرنا شروع کیا ہے اور ان کی تمام کابینہ نے حکمت عملی اپناتے ہوئے جس طرح کاموں کا جو بیڑا اٹھایا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ دنیا میں کوئی ملک، کوئی قوم اور تہذیب ایسی نہیں جس نے اپنی پیدائش کے فوراً بعد کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیئے ہوں، افراد ہوں، اقوام یا ملک سب کو ارتقا کے پل سے ضرور گزرنا پڑتاہے۔ آج آپ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی فہرست بنائیں اور اس کے بعد ان ممالک کی تاریخ اور ترقی کا جائزہ لیں آپ کو نظرآئے گا یہ تمام ممالک مسائل کے دریا عبورکرکے اس مقام تک پہنچے ہیں، ان تمام ممالک نے مشکلات کی ندیاں عبورکی ہیں اور یہ تمام ممالک کرپشن، لاءاینڈآرڈر، خانہ جنگی اور آمریت کے پہاڑکاٹ کرموجودہ مقام تک پہنچے ہیں۔ فرانس اٹھارویں صدی تک دنیا کا بدترین ملک تھا،1789ءتک فرانس میں بادشاہی نظام تھا اور عوام فاقوں سے مررہے تھے، بادشاہ نے اپنی ایک مجلس شوری بنارکھی تھی جس کا کام صرف ٹیکس نافذکرنا اور عوام کا خون چوسنا تھا۔1789ءتک سینٹ کے اجلاس کو بلائے ہوئے116سال گزرچکے تھے یعنی116سالوں سے سینٹ کا کوئی اجلاس ہوا ہی نہیں تھا۔ عوام نے اپنی الگ اسمبلی بنالی اور قومی اسمبلی کا لفظ پہلی بار یہیں استعمال ہوا، عوامی راہنما ایک ٹینس کورٹ میں اکٹھے ہوئے اور ملک کےلئے ایک نیا دستورمرتب کرلیا، دستورمرتب ہوا تو عوام اس کے حق میں سڑکوں پہ نکل آئے اور بادشاہ سے مطالبہ کیا کہ وہ اس دستور پر دستخط کرے، بادشاہ نے انکارکیا تو عوام اسے زبردستی اٹھاکرلے آئے اور اس سے دستخط کروالئے۔ آج فرانس اگر فرانس ہے تو اس فرانس کے پیچھے ایک لمبی کہانی اور ایک طویل جدوجہد ہے۔ آپ کو اٹھارویں صدی کے فرانس اور 2016ءکے پاکستان کے مسائل ایک جیسے نظرآئیں گے۔ آپ انڈیاکی سن لیں ، دنیا کے انتہائی غریب ترین ممالک میں انڈیا کا پہلا نمبرہے، انڈیا میں 1.2بلین لوگ آج بھی بجلی سے محروم ہیں، دنیا کے ایک انتہائی غریب انڈیامیں رہتے ہیں، تقریباً 38 فیصد انڈین خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، کم عمری کی شادیوںمیں انڈیا سب سے آگے ہیں،ر اجستھان، مدھیہ پردیش، اترپردیش، بہار، جھاڑ کھنڈ،اڑیسہ اورمغربی علاقے ہیں جو دنیا کے غریب ترین خطوںمیں شمار ہوتے ہیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ ریپ کیسز انڈیامیں ہورہے ہیں، انڈین معاشرہ اخلاقی طور پر پاکستانی معاشرے سے بہت پیچھے ہے، انڈین معاشرہ اخلاقی طور پر پاکستانی معاشرے سے بہت پیچھے ہے، انڈین میڈیا پاکستانی میڈیا کا مقابلہ نہیں کرسکتا، پاکستان فوج انڈین فوج سے کہیں آگے ہے، آئی ایس آئی اور راءمیں زمین آسمان کا فرق ہے، پاکستانی پارلیمنٹ انڈین پارلیمنٹ سے زیادہ متحرک، باشعور اور مہذب ہے۔ بس انڈیا کی کرکٹ اور اس کی فلم انڈسٹری نے انڈیا کا اصل چہرہ دنیا سے چھپایا ہواہے ورنہ حقیقت بڑی خوفناک ہے اوراگرہم پاکستان کی ترقی کی جانب نگاہ دوڑائیں تو ہم نے بہت سارے مسائل کے باوجود زندگی کے بہت شعبوںمیں اپنا روشن چہرہ پوری دنیا کو دکھایاہے۔

مزیدخبریں