وطن پر قربان ہونے والے پاک فوج کے افسران و جوان

4 اور 5 اکتوبر کی درمیانی شب ضلع شمالی وزیرستان کے علاقے سپین دام میں انٹیلی جنس رپورٹس کی بنیاد پر کیے گئے آپریشن کے دوران جب پاک فوج کے رستے اور وہاں چھپے ہوئے دہشت گردوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا جو دہشت گردوں کے پاس بھاری مقدار میں جدید اسلحہ کی موجودگی کے سبب طویل ہوگیا تو فائرنگ کے اس تبادلے میں لفیٹنٹ کرنل محمد علی شوکت اپنے 5 جوانوں کے ہمراہ لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔ اس لڑائی میں وہاں چھپے تمام دہشت گرد مارے گئے۔ تاہم دہشت گردوں کے خلاف کاروائی میں پاک فوج کے لفٹینٹ کرنل کی شہادت ثابت کرتی ہے کہ پاک فوج میں افسران کس طرح اپنی سپاہ کی قیادت کرتے ہوئے دشمنوں کے خلا ف لڑائی میں سب سے آگے ہوتے ہیں اور پاک فوج کی یہی پیشہ وارانہ روایت ہی جو دہشت گردوں کے خلاف جاری جنگ میں پاک فوج کے بلند تربیتی معیار کو اجاگر کرتی ہے کہ کمانڈر کے لیے اس کے جوان اسے اپنی اولاد کی طرح عزیز ہوتے ہیں جن کے سامنے ڈھال بن کر جنگ کے میدان میں اترتا ہے تاکہ دشمن کی طرف سے چلائی جانے والی گولی سب سے پہلے وہ اپنے سینے پر کھائے گا۔ لفیٹنٹ کرنل محمد علی شوکت کی شہادت اس بات کا ثبوت ہے۔
انتہائی افسوس ہوتا ہے جب سوشل میڈیا پر اعلیٰ تعلیم یافتہ پاکستانی پاک فوج کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے بے بنیاد قسم کے الزامات اور پروپیگنڈے کے بل بوتے پر اپنی ہی فوج کو شکست کو دے کر ملک کو آزاد کرانے جیسے دعوے کرتے ہیں۔ صرف اس لیے کہ ان کے من پسند حکمران برسرے اقتدار نہیں۔ جھوٹ پر مبنی پیغامات کی حقیقت کو پرکھے اور سچ جھوٹ کا فرق پس پشت ڈالتے ہوئے سوشل میڈیا پرزیرِ گردش پروپیگنڈے کو ہتھیار سمجھ کر استعمال کرنے والا دوسرا طبقہ خود کو سب سے زیادہ باخبر ثابت کرنے کی دھن میں وصول ہونے والے پیغامات کو فوری طور پر زیادہ سے زیادہ تعداد میں مزید پھیلانے کی جلدی میں ذرا نہیں سوچتا کہ وہ اپنی جس فوج پر طعنہ زنی کرتے ہوئے وہ پروپیگنڈے کا طوفان برپا کیے ہوئے ہیں اسی فوج کے افسران اور جوان وطن کے دفاع اور اپنی قوم کی سلامتی کے لیے پچھلی دو دہائیوں سے دہشت گردوں کے سامنے ہمالیہ کے پہاڑ کی مانند ڈٹ کر کھڑے ہیں۔ ایک شہید ہوتا ہے تو فوراً دوسرا افسر وجوان اس کی جگہ لے کر سینے پر گولیاں کھانے کے لیے دشمن کے سامنے سینہ سپر ہو جاتا ہے۔ وہ بھول جاتا ہے کہ اس کے پیچھے بوڑھے ماں باپ اس کی شہادت کے بعد بے آسرا ہو جائیں گے۔ مستقبل کے سہانے خواب سجھائے اس کی بیوی کس طرح اس کے ان یتیم ہونے والے بچوں کو پالے گی جو نہیں جانتے کہ ان کا باپ کہاں چلا گیا ہے۔ وہ باپ جو گھر لوٹتے ہی سب سے پہلے انھیں اٹھاتا، گلے سے لگاتا، پیار کرتا اور بتاتا کہ وہ اپنے بچوں کے لیے کون سے تحفے لایا ہے۔
سوشل میڈیا پر اپنی فوج کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والوں کے لیے یہ محض ایک شغل ہوسکتا ہے لیکن انھیں یاد نہیں کہ جب 2004ءکے بعد خود کش بمبار اور دہشت گرد پورے ملک میں دندناتے پھرتے تھے۔ روزانہ ان کی طرف سے ملک کے کسی حصے میں ایسے خود کش حملے کی اطلاع ملتی جس کی زد میں آکر درجنوں شہری لقمہ اجل بن جاتے۔ یہ وہ وقت تھا جب ملک میں بازار، پارک، سرکاری دفاتر، تھانے، کچہریاں، بچوں اور بڑوں کے تعلیمی ادارے، مساجد، مزارات، اقلیتوں کی عبادت گاہیں، یہاں تک کہ ہسپتال تک محفوظ نہیں تھے۔ آج جو صاحبان پاک فوج کے خلاف فلسفہ جھاڑنے میں مصروف ہیں اس دور میں ان کو گھروں سے باہر نکلتے ہی موت کا خوف گھیر لیا جاتا تھا۔
 اتنے گھمبیر حالات میں بھی یہی پاک فوج، فوج کے خفیہ ادارے، آئی ایس آئی کے گمنام افسران اور جوان ہی تھے جنھوں نے دہشت گردوں کا چیلنج قبول کر تے ہوئے سروں پر کفن باندھا اور شہادت کے جذبے سے سرشار ہو کر دہشت گردوں کے خلاف ایک ایسی جنگ میں صف آرا ہوگئے جس میں وہ نہیں جانتے تھے کہ دہشت گرد کب کہاں اور کس حلیے میں ان پر حملہ آور ہوگا۔ سڑکوں پر رواں ٹریفک میں سے کون سی گاڑی ہے جو بارود سے بھری ہوگی اور اپنے ہدف سے ٹکرا کر ان کے اپنے سمیت مزید بے شمار شہریوں کی موت کا سبب بن جائے گی۔
دنیا میں لڑی جانے والی اس طرح کی جنگوں کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو دہشت گردوں کے خلاف لڑنے والی افواج ہر اس آبادی اور بستی کو تباہ کرنے میں دیر نہیں لگایا کرتی تھیں جہاں سے ان پر کوئی حملہ آور ہوتا۔ لیکن پاک فوج نے اس جنگی روایت ہی کو بدل کے رکھ دیا۔ پہلے خفیہ اداروں کے گمنام سپاہیوں کے ذریعے آبادیوں میں چھپے دہشت گرد عناصر اور ان کے سہولت کاروں کا کھوج لگایا گیا بھلے اس عمل میں خفیہ اداروں کے بہت سے افسران و جوان شہید ہوگئے۔ لیکن پاک فوج نے اپنے افسران و جوانوں کے جانی نقصان کے باوجود صبر و تحمل کے ساتھ حقیقی دشمنوں کو تلاش کر کے مارنے کی اپنی پالیسی تبدیل نہیں کی۔ انھیں شہادتوں اور قربانیوں کا ثمر تھا جس کے نتیجے میں پاک فوج نے نہ صرف ملک بھر سے بلکہ قبائلی علاقوں میں ان کے تمام خفیہ محفوظ ٹھکانوں کو تباہ کر کے دہشت گردوں کا بڑی حد تک صفایا کردیا۔ ان کی قیادت فرار ہو کر افغانستان میں اپنے سرپرستوں کے پاس پناہ حاصل کرنے پر مجبور ہوگی۔
 بدقسمتی سے افغان طالبان جن کے لیے پاکستان 1977ءسے قربانیاں دیتا چلا آرہا ہے۔ افغانستان سے پناہ لینے کے لیے آنے والے لاکھوں افغان مہاجرین کو خندہ پیشانی اپنے ملک میں قبول کیا۔ اپنے معاشرے کو کلاشنکوف اور ہیروین کلچر کی بھینٹ چڑھایا مگر جب افغانستان میں افغان طالبان کو اقتدار ملا تو وہ بجائے پاکستان اور پاکستانی عوام کا شکر گزار ہونے کے الٹا ان تمام دہشت گرد گروپوں کے سرپرست بن گئے جو بھارت وہ دیگر پاکستان دشمنی قوتوں کی سرپرستی میں دو دہائیوں سے پاکستان میں دہشت گردی کا طوفان برپا کیے ہوئے تھے۔ افسوس افغان مہاجرین کے اندر سے بہت سے مہاجرین ان دہشت گردوں کے سہولت کار بن گئے جو 2002ءکے بعد سے پاکستان میں معصوم پاکستانیوں کے خون سے ہولی کھیلتے چلے آرہے تھے۔ رہی سہی کسر موجودہ افغان عبوری حکومت نے پاکستان میں سرگرم دہشت گردوں کو اس جدید امریکی اسلحہ سے لیس کر کے پودی کردی جو 2021ءمیں امریکی افواج اسی مقصد کے لیے افغانستان میں چھوڑ کر گئی تھی۔ اسی جدید اسلحہ کی بدولت دہشت گردوں کے حوصلے ضرور بلند ہوئے لیکن پاک فوج کی طرف سے دی جانے والی اپنی جان کی قربانیوں نے ثابت کردیا ہے کہ ان کا جذبہ شہادت جدید امریکی اسلحہ پر بھاری ہے۔

ای پیپر دی نیشن