پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے سعودی عرب کا اعلیٰ سطح کا وفد گزشتہ روز اسلام آباد پہنچ گیا۔ سعودی عرب کے وزیر برائے سرمایہ کاری شیخ خالد بن عبدالعزیز الفالح کی قیادت میں پاکستان آنیوالے سعودی وفد کا نورخان ایئربیس پر شاندار استقبال کیا گیا۔ اس دورے میں پاکستان اور سعودی عرب کے مابین دو طرفہ تجارتی و سرمایہ کاری کے باہمی معاہدوں اور اہم یادداشتوں پر دستخط کئے جائیں گے۔ سعودی عرب کے 130 سرمایہ کار اس وفد میں شامل ہیں۔ پاکستان پہنچنے کے بعد وزیراعظم میاں شہبازشریف کی جانب سے سعودی وفد کے اعزاز میں عشائیہ کا اہتمام کیا گیا جس میں وفاقی کابینہ کے ارکان بھی مدعو تھے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق سعودی وفد آج گیارہ اکتوبر کو نیشنل ایئروسپیس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پارک کا دورہ کریگا جبکہ آج پاکستان کے عسکری حکام سے بھی سعودی وفد کی ملاقات متوقع ہے۔ اسکے علاوہ وزارتی سطح پر سعودی وفد کے ساتھ راﺅنڈ ٹیبل میٹنگز بھی سعودی وفد کے دورہ پاکستان کے شیڈول میں شامل ہیں جبکہ سعودی وفد کے ساتھ بزنس ٹو بزنس سیشن بھی ہوں گے۔ ذرائع کے مطابق سعودی وفد کے ساتھ مختلف سیشنز میں وزارت توانائی‘ پٹرولیم‘ انفرمیشن ٹیکنالوجی‘ فوڈ سکیورٹی اور کمیونیکیشن ڈویژن کے حکام شرکت کرینگے۔ اس دوران سعودی عرب اور پاکستان کے مابین مختلف معاہدوں پر دستخط ہونگے۔ اس دورے کے دوران سعودی وفد کی صدر مملکت آصف علی زرداری اور وزیراعظم شہبازشریف کے ساتھ باضابطہ ملاقات بھی ہوگی۔
وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ کابینہ کمیٹی نے انڈیپنڈنٹ سسٹم اینڈ مارکیٹ اپریٹر کی تشکیل کی اصولی منظوری دیدی ہے جس کی وفاقی کابینہ توثیق کریگی۔ آئی ایس ایم او کو کمپنیز ایکٹ کے تحت ایس ای سی پی سے رجسٹر کرایا جائیگا۔ اس ادارے کے ذریعے پاکستان میں بجلی کی ایک موثر اور شفاف مسابقتی مارکیٹ قائم کی جائیگی اور اس نظام سے بجلی کے صارفین کو تقسیم کار کمپنیوں کے علاہ دیگر سپلائرز سے بھی بجلی خریدنے کی سہولت فراہم ہو سکے گی۔ سعودی وفد کے ساتھ بجلی کی مسابقتی مارکیٹ کے حوالے سے بھی تبادلہ خیال ہوگا اور یادداشتوں پر دستخط کئے جائیں گے۔ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ سعودی سرمایہ کاروں کی پاکستان کے مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری سے پاکستان معاشی استحکام کی جانب گامزن ہوگا۔ سعودی سرمایہ کاری کے یہ مواقع ایگریکلچر‘ لائیو سٹاک‘ آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام‘ کان کنی‘ انرجی‘ صنعت‘ سیاحت‘ رئیل اسٹیٹ اور لاجسٹکٹس کے شعبوں میں نکل رہے ہیں۔ سفارتی ذرائع کے مطابق سعودی سرمایہ کاروں کے اس دورے سے سعودی عرب اور پاکستان کے مابین گہرے اور برادرانہ روابط مزید مضبوط ہونگے اور دوطرفہ کاروباری سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہوگا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ قومی معیشت کے استحکام اور اندرونی و بیرونی سرمایہ کاری کے فروغ کیلئے ملک میں سیاسی استحکام بھی لازمی تقاضا ہے۔ بدقسمتی سے گزشتہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے ہم بوجوہ سیاسی عدم استحکام کی کیفیت سے گزر رہے ہیں جبکہ ملک میں دہشت گردی کے پھیلتے ناسور اور توانائی کے بحران نے سرمایہ کاروں کو غیریقینی کی صورت حال اور اعتماد کے فقدان سے دوچار کر رکھا ہے۔ بے شک کوئی بھی سرمایہ کار کسی ایسے ملک میں سرمایہ کاری کا رسک لینے کو تیار نہیں ہوگا جہاں مخصوص ایجنڈے کے تحت دہشت گردی کا تواتر کے ساتھ سلسلہ جاری ہو اور سرمایہ کاری کے بنیادی لوازمات تک دستیاب نہ ہوں۔ ہمارے وطن عزیز کو چمٹا ہوا دہشت گردی کا ناسور ملک میں سرمایہ کاری کے مواقع موجود ہونے کے باوجود سرمایہ کاروں میں عدم تحفظ کے احساس کو اجاگر کرتا ہے تو بیرونی سرمایہ کار تو کجا‘ ملک کے اندر موجود سرمایہ کاروں کو بھی اپنے ملک میں سرمایہ کاری کا رسک لینے کی ہمت نہیں ہوتی چنانچہ ملکی ناسازگار حالات کی بنیاد پر اکثر سرمایہ کار اپنا کاروبار سمیٹ کر ملک سے باہر لے جاچکے ہیں جو قومی معیشت کے کمزور ہونے کی بڑی وجہ ہے۔ اسی طرح ہمارے ٹیکس سسٹم سے سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے جبکہ ایک سیاسی جماعت کے مخصوص ایجنڈے کے تحت ملک میں افراتفری‘ انتشار‘ گھیراﺅ‘ جلاﺅاور سیاسی عدم استحکام کی فضا گرمائی جاتی ہے تو ان حالات کو بھانپ کر بھی سرمایہ کار طبقات اپنا سرمایہ ڈوبنے کے خدشات میں مبتلا رہتے ہیں۔
بے شک اس حقیقت سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا کہ قدرت نے ہماری دھرتی کو وسائل سے مالامال کر رکھا ہے جنہیں سرمایہ کاری کیلئے بروئے کار لا کر پاکستان کوطترقی یافتہ ممالک کی صف میں نمایاں مقام تک پہنچایا جا سکتا ہے مگر ہماری انتظامی‘ ادارہ جاتی بے تدبیریوں نے ملکی معیشت کے درست سمت کی جانب گامزن ہونے کے مواقع ہی پیدا نہیں ہونے دیئے۔ ان بے تدبیریوں کے باعث ہی توانائی کا بحران سنگین سے سنگین تر ہوا ہے اور نجی پاور کمپنیوں کو قومی سرمایہ کی دونوں ہاتھوں سے لوٹ مار کا موقع ملا ہے۔ اس تناظر میں ہماری زراعت و معیشت ترقیءمعکوس کی جانب گامزن ہے۔ اگر اس فضا میں بھی برادر مسلم ملک سعودی عرب کی جانب سے سرمایہ کاری کے معاملہ میں ہمیں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا مل رہا ہے اور سعودی صنعت کار اور تاجر حضرات پاکستان میں مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کا نہ صرف عندیہ دے رہے ہیں بلکہ اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے بھی کر رہے ہیں جس کیلئے پاکستان اور سعودی عرب کی حکومتیں خود ضمانت فراہم کر رہی ہیں تو قومی معیشت کی ترقی و استحکام کیلئے اس سے زیادہ سازگار فضا اور کیا ہو سکتی ہے۔
یہ امر واقع ہے کہ کسی بھی آزمائش کے کسی بھی مرحلہ میں شہد سے میٹھی دوستی کے حامل چین اور مسلم برادرہڈ کے جذبے سے سرشار برادر سعودی عرب نے ہمارا بے لوث ساتھ دیا ہے اور ملکی معیشت کو سنبھالنے میں ہماری معاونت کی ہے۔ پاکستان چین اقتصادی راہداری (سی پیک) اور آئی ایم ایف کے بیل آﺅٹ پیکیج کیلئے بلاسود اور محض ادھار کی بنیاد پر قرض کی فراہمی پاکستان چین اور پاک سعودی دوستی کی زندہ مثالیں ہیں۔ برادر سعودی عرب کی جانب سے تو توانائی کے بحران پر قابو پانے کیلئے پاکستان کو ادھار تیل فراہم کرنے کی بھی فراخدلانہ پیش کشوں اور پھر انہیں عملی جامہ پہنانے کی قابل قدر مثالیں موجود ہیں۔ اگر ملک کا سسٹم سیاسی استحکام کی منزل کی جانب گامزن ہو تو یہاں امن و خوشحالی کا دور دورہ ہو مگر ہمارے اندرونی اور بیرونی دشمنوں اور بدخواہوں کو پاکستان کا اقتصادی اور سیاسی استحکام سے ہمکنار ہونا ایک آنکھ نہیں بھاتا چنانچہ انکی جانب سے خانہ ساز اور بیرونی سازشوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ گزشتہ اور رواں ماہ کے دوران اس حوالے سے ملک میں ایک مخصوص سیاسی جماعت کی جانب سے دھماچوکڑی مچا کر ملک کو عدم استحکام کی جانب دھکیلنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔
یہ خوش آئند صورتحال ہے کہ ملک کی موجودہ سول سیاسی اور عسکری قیادت نے ملک کی معیشت کو استحکام کی منزل سے ہمکنار کرنے کا عزم باندھا اور اس کیلئے قومی اور صوبائی ایپکس کمیٹیوں کے ذریعے عملی اقدامات اٹھانے کی نادر مثالیں قائم کیں۔ اگر اسی جذبے کے ساتھ قومی تعمیر و ترقی کی جانب قدم بڑھائے جاتے رہے تو ملک کو درپیش ہر چیلنج سے عہدہ برا ہونے کے راستے نکلتے رہیں گے۔ سعودی سرمایہ کاروں کے ایک بڑے وفد کا موجودہ دورہ پاکستان بھی سول اور عسکری قیادتوں کے باہمی تال میل کے ہی ثمرات ہیں جبکہ اس سے سفارتی سطح پر پاکستان پر اعتماد کے راستے بھی کھلتے نظر آرہے ہیں۔ رواں ماہ اسلام آباد میں منعقد ہونیوالی شنگھائی تعاون تنظیم کی سربراہی کانفرنس بھی پاکستان کی اقتصادی ترقی کے راستے ہی ہموار کریگی۔ اس حوالے سے جو عناصر پاکستان کی ترقی کے عمل کو سبوتاڑ کرنے کے درپے ہیں‘ وہ ملک اور قوم کے ساتھ کتنے مخلص ہیں‘ اس کا فیصلہ کرنا ہی آج عوام کیلئے بڑا چیلنج ہے۔