لاہور (خبر نگار)لاہور ہائیکورٹ نے حساس اداروں کو شہریوں کی کالز ریکارڈ کرنے کی اجازت دینے کے نوٹیفکیشن کے خلاف درخواست کے قابل سماعت ہونے سے متعلق فیصلہ محفوظ کر لیا۔چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ مس عالیہ نیلم کی سربراہی میں تین رکنی فل بنچ نے درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزار کی جانب سے اظہر صدیق ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔وکیل درخواست گزار نے کہا کہ متفرق درخواست کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اسی نوعیت کی درخواست کو ریکارڈ کا حصہ بنایا گیا ہے، سپریم کورٹ میں پاکستان بار کونسل کے ممبرز نے درخواست دائرکی۔ چیف جسٹس مس عالیہ نیلم نے کہا کہ آپ نے بھی وہی نوٹیفکیشن چیلنج کیا جو سپریم کورٹ میں پہلے ہی چیلنج ہے۔اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے کہا کہ کسی کو کال ریکارڈنگ کی اجازت دینا جرم ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ معاملہ سپریم کورٹ میں پینڈنگ ہے، آپ وہاں فریق بن سکتے ہیں۔اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے کہا کہ پنجاب اور لاہور کے لیے یہ عدالت کیس سن سکتی ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اب ایک نیا سلسلہ شروع ہو چکا ہے کہ ایک کیس ایک ہائیکورٹ میں دائر ہوتا ہے وہی معاملہ دوسری ہائیکورٹس میں دائر کر دیا جاتا ہے ۔ جسٹس شہباز رضوی نے ریمارکس دیئے کہ اگر اسلام آباد ہائی کورٹ درخواست منظور کر لیتی ہے تو اسکا افیکٹ کیا ہو گا، یہ تو نہیں ہو سکتا کہ اسکا افیکٹ صرف اسلام آباد کی حدود میں ہو۔ ہمارا سوال یہ ہے آپ ہمیں بتائیں کہ اس کا افیکٹ اسلام آباد کی حد تک ہو گا یا نہیں۔چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے کہا کہ اگر فئیر ٹرائل ایکٹ انفورس ہو جاتا ہے تو بہت حد تک بہتری آ جائے گی۔ اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے کہا کہ اس سے تو ہمارا کریمنل جسٹس سسٹم بہتر ہو جائے گا۔ بعد ازاں عدالت نے حساس اداروں کو شہریوں کی کالز ریکارڈ کرنے کی اجازت دینے کے نوٹیفکیشن کے خلاف درخواست کے قابل سماعت ہونے سے متعلق فیصلہ محفوظ کر لیا ۔لاہور ہائیکورٹ نے کاروائی غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی۔