مرشد سے جیل میں ملاقاتیں منع کر دی گئی ہیں۔ اس پر کراچی کے ایک معاصر نے اپنی تجزیاتی رپورٹ کی دلچسپ سرخی جمائی ہے۔ لکھا ہے کہ 18 تاریخ تک اس پابندی پر پارٹی کی قیادت نے سکھ کا سانس لیا ہے۔
یعنی پارٹی قیادت ’’مرشد‘‘ پر اس پابندی سے خوش ہے اور اسے اْمید ہے کہ 18 تاریخ آنے پر اس پابندی میں مزید توسیع ہو جائے گی یعنی وہ بدستور سکھ کے سانس لیتی رہے گی۔ وجہ اس خوشی کی یہ بتائی گئی ہے کہ ہر ملاقات میں مرشد اسے یعنی قیادت کو ایسی ذمہ داریاں تفویض کرتے تھے جو وہ ادا کر ہی نہیں سکتے تھے۔ دیگر ذرائع یہ بتاتے ہیں کہ ایسی ہر ملاقات دراصل ’’پیشی‘‘ ہوتی تھی جس کیلئے ’’کلاس لینے‘‘ کا محاورہ بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ ڈانٹ ڈپٹ اور جواب طلبی کے اس عمل سے پارٹی قائدین بہت تنگ تھے، ہر ملاقات پر جواب دینا پڑتا تھا کہ انقلاب ابھی تک کیوں نہیں آیا۔ لوگ سڑکوں پر کیوں نہیں نکلتے، جلسے ناکام کیوں ہو رہے ہیں وغیرہ وغیرہ اور قائدین کی ناک میں دم کر دیا کرتے تھے۔ ایک جلسے کی ناکامی پر تو مرشد کا یہ بیان بھی میڈیا کی زینت بنا کہ پارٹی صدر گوہر خاں بزدل اور نالائق ہے، اسے ہٹا دو، کسی اور کو لگا دو ، اس علانیہ ’’عزّت افزائی‘‘ پر باعزّت حلقوں کو یقین تھا کہ گوہر خاں خود ہی استعفیٰ دے دیں گے لیکن باعزّت حلقے غلط ثابت ہوئے اور بے عزّت حلقوں کی پیش گوئی پوری ہوئی کہ گوہر خاں کبھی استعفیٰ نہیں دیں گے۔ نوکری اور عزّت سادات میں سے کس کا انتخاب کرنا چاہیے، یہ گوہر خاں اچھی طرح جانتے ہیں۔
____
انقلاب 4 اکتوبر کی تفصیلات بھی اس رپورٹ میں دی گئی ہیں۔ پروگرام کے مطابق ہزارھا مظاہرین نے ڈی چوک پر قبضہ کر کے /25 اکتوبر تک دھرنا دینا تھا اور اس وقت تک نہیں اٹھنا تھا جب تک شنگھائی کانفرنس کو ہونے سے روک نہ دیا جائے اور مجوزہ حکومتی آئینی ترامیم بھی نہ ہو سکیں جس کے بعد حکومت گرا دی جائے۔ اس مقصد کیلئے مجاہدین آزادی کو افغانستان سے بھی بلایا گیا جبکہ راولپنڈی اور گرد و نواح میں غیر قانونی افغان پناہ گزینوں کی کھیپ کی خدمات بھی حاصل کی گئیں جن میں سے ہر ایک ’’مجاہد آزادی‘‘ کو دو دو ہزار روپے فی یوم کے عوضانے یا ’’مجاہدانے‘‘ دئیے گئے۔ کچھ اور ناگفتہ بہ‘‘ منصوبے بھی شامل تھے جن کے تحت ’’سنائیپرز‘‘ کی ڈیوٹی لگائی گئی یعنی ، معاصرے کے مطابق، کینوس بہت بڑا تھا۔
کینوس تو بہت بڑا تھا لیکن ہوا یہ کہ رنگ ملا نہ برش۔ یعنی مجاہدین آزادی کی اتنی کم تعداد ہی دستیاب ہو سکی جو دو چار کنٹینروں کو اپنی جگہ سے ضرور ہلا اور کھسکا سکتی تھی، اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتی تھی۔ یوں سمجھئے کہ چاول پکانے کو دیگ تو مل گئی لیکن چاول پچاس گرام سے زیادہ نہ مل سکے، اب 50 گرام چاول کی اوقات ہی کیا، دیگ کے پیندے کو بھی سفید کرنے کیلئے ناکافی۔
البتہ سنائیرز نے اپنی ڈیوٹی نبھائی۔ -85 پولیس والے ان کی گولیوں سے زخمی ہوئے۔ ایک پولیس والا شہید ہوا لیکن وہ سنائیپرز کا کارنامہ نہیں ، مجاہدین آزادی نے اسے ہاتھوں سے مار مار کر شہید کیا۔
____
جہاد آزادی کے فیصلہ کن معرکے سے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ نے راہ فرار اختیار کی۔ اس پر طرح طرح کی قیاس آرائیاں ہوتی رہیں۔ اب معلوم ہوا ہے کہ ایک وجہ مجاہدین آزادی کی مختصر تعداد بھی تھی۔ فیصلہ کن معرکے کے جنرل بخت خاں بھی گنڈاپور ہی تھے، بعض نے انہیں احمد شاہ ابدالی دوئم کا خطاب بھی دیا۔ لیکن اڑھائی ٹوٹرو دیکھ کر احمد شاہ ابدالی نے عافیت اسی میں سمجھی کہ کے پی ہائوس میں پناہ لی جائے اور وہاں سے عازم سفر پشاور ہوا جائے چاہے راستے میں بارہ ضلعے ہی کیوں نہ آئیں۔
____
حاصل وصول اس ساری معرکہ آرائی کا یہ ہوا کہ گنڈاپور نے لائن بدل لی اور یوں ایک اور ’’جگہ‘‘ اپنی نوکری پکّی کر لی۔ تازہ اضافہ اس بحرانی صورتحال میں یہ ہوا کہ پشاور کے نزدیک، خیبر کے مقام پر منظور پشتین کی جماعت نے پشتون قومی جرگہ بلا لیا جس کا مقصد خود انہی کے الفاظ میں یہ تھا کہ ’’پشتون قوم اپنے اگلے لائحہ عمل ‘‘ کا اعلان کرے گی۔
یہ فقرہ بذات خود اتنا بلیغ ہے کہ مطلب سمجھانے کی ضرورت نہیں۔ ایک قسم کا اعلان آزادی کیا جانا تھا۔ وفاقی حکومت نے تشویشناک اطلاعات ملنے کے بعد اس پارٹی کو کالعدم کر دیا اور جرگہ کو ہونے سے روک دیا۔ جرگہ پی ٹی آئی کی آشیرباد، ملی بھگت بلکہ اسی کی مہمیز پر دیا جا رہا تھا۔ دھرنا روکنے پر پی ٹی آئی نے اپنا بے قابو اشتعال ظاہر بھی کیا۔ اسد قیصر، مراد سعید اور قاسم سوری وغیرہ کے تلماتے دانت کچکچاتے بیانات سبھی نے ملاحظہ کر لئے ہوں گے۔ ان تینوں رہنمائوں میں سے موخر الذکر دونوں روپوش ، البتہ اوّل الذکر روپیش ہیں۔ ان تینوں کے علاوہ پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی نے بھی کسی نامعلوم مقام سے اپنا غضبناک بیان جاری کیا ہے جس میں مرشد کی ملاحیوں سے لے کر جملہ اقسام کی دھمکیوں تک کے سبھی بارہ مصالحے شامل ہیں۔ یوں ’’گریٹر پشتونستان‘‘ کی ’’عروسہ‘‘ کی نقاب کشائی__ عملاً۔ روبہ آغاز کر دی گئی ہے۔
لیکن اصل حیرت ناک بات یہ ہوئی کہ حق و باطل کی جنگ کے اس نازک موڑ پر گنڈاپور دوڑ کر ’’باطل‘‘ یعنی حکومت و ریاست سے جا ملا۔ اس نے اور اس کی حکومت کے ترجمان نے پشتونستان والے جرگے کی مخالفت کر دی اور اب باطل کے دو بڑے نمائندوں یعنی وفاقی وزیر داخلہ اور گورنر کے ساتھ گنڈاپور کے رابطوں اور ’’ساز باز‘‘ کی خبریں سامنے آ رہی ہیں۔
پی ٹی آئی سکتے میں ہے کہ:
جس پر تکیہ تھا، وہی ’’گنڈا‘‘ ہوا دینے لگا۔
____
ٹی وی چینلز پر پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی کے ارکان ’’اینکرز‘‘ کا روپ دھار کر چھائے ہوئے ہیں۔ ماجرا ایک بڑے ’’پراجیکٹ‘‘ کے تحت ہوا تھا لیکن خیر، مقصد اس پر بات کرنا نہیں۔ بتانے والی بات یہ ہے کہ یہ میڈیا کی سیاسی کمیٹی اور پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا دو تین روز سے ایک معاملے کو اٹھا رہا ہے کہ اس وقت پارٹی کی جتنی قیادت باہر ہے (ظاہر ہے، روپوش رہنما اس میں شامل ہیں) سب کمپرومائزڈ ہے۔
کمپرومائزڈ یعنی فروخت ہو چکی ہے، بک چکی ہے، ظالم اور فسطائی حکمرانوں سے درپردہ ملی ہوئی ہے اور پارٹی کے ’’مرشد‘‘ کو گھیر کر مارنے پر تلی ہوئی ہے۔
اس بتانے والی بات سے پوچھنے والا سوال جنم لیتا ہے اور وہ یہ ہے کہ حضور، یہ بکائوقیادت کس کا حسن انتخاب تھی؟۔ ظاہر ہے ان میں سے ایک ایک کا انتخاب مرشد نے کیا تھا__ گویا مرشد خود ہی خود کو گھیر کر مرنے پر تلا ہوا ہے تو فسطائی اور ظالم حکمرانوں کا پھر کیا قصور؟