یہ اُسی کا حوصلہ تھا کہ میں پَرفشاں ہوا تھا
کوئی نقش تھا نہ نقشہ‘ کوئی راہبر نہ رستہ
مگر اُس کا عزمِ پیہم کہ ظفر نشاں ہوا تھا
جہاں خاک و خوں سے آگے فقط آگ کا تھا دریا
کوئی ناﺅ بن گیا تھا‘ کوئی بادباں ہوا تھا
جو سراب لگ رہا تھا‘ وہ سحاب بن کے برسا
وہ جو پھول پھول مہکا‘ وہی گلستاں ہوا تھا
مرا نام ناﺅں اُس سے‘ مری دھوپ چھاﺅں اُس سے
وہ جو آسماں ہوا تھا‘ وہ جو سائباں ہوا تھا
نہ زباں رہی تھی بس میں‘ نہ ہی دل تھا دسترس میں
کوئی ہم زباں ہوا تھا‘ کوئی راز داں ہوا تھا
وہ جو میرا جسم و جاں تھا وہ جو میرا پاسباں تھا
وہی سعد میرا قائد مرا کارواں ہوا تھا
جو مِلا تھا کھو چکا میں‘ سرِ راہ سو چکا میں
میں جو بجھ گیا ہوں یکسر کبھی شعلہ ساں ہوا تھا
میں محبتوں کا جویا‘ میں نے دل میں درد بویا
میں سلگ سلگ کے رویا‘ میں دھواں دھواں ہوا تھا
مری ہجرتوں کا حاصل وہی رنگِ چشمِ قاتل
میں کسے بتاﺅں جا کر کوئی میہماں ہوا تھا
مری آنکھ جس نے نم کی‘ وہ شفق تھی شامِ غم کی
یہ سفر تھا روشنی کا کہ جو رایگاں ہوا تھا
کوئی حرفِ غم گساراں پئے حالِ دلفگاراں
کبھی اشک اشک بکھرا‘ تو کبھی فغاں ہوا تھا
مرے مولا پھر عطا ہو وہی دائمی حوالہ
وہی روشنی کا ہالہ جو ابداماں ہوا تھا