قائداعظم اورآج کا پاکستان

Sep 11, 2011

رانا اعجاز احمد خان
قائداعظم کا انتقال ہوا تو نوزائیدہ مملکت اور ارتقاءکی طرف پہلا قدم اٹھاتی ہوئی قوم یتیم ہوگئی۔ اس کے بعد قوم اور ملک کو وہ قیادت نہ مل سکی جو اس کی دستگیری کرتی۔ قائد محترم کی اہلیت، قابلیت ، اوصافِ حمیدہ اور پاکیزہ کردار کا اعتراف بطور پاکستانی اور ان کے احسان مند ہونے کے ناطے ہم کرتے ہیں۔ اصل بات تو وہ ہے کہ غیر، مخالف اور دشمن بھی ان کی خوبیوں کو تسلیم کریں۔ آئیے ملاحظہ فرمائیے غیر پاکستانی، مخالف اور دشمن ہمارے قائد کے بارے میں کیا کہتے ہیں :
قائدِ اعظم دسمبر 1946ء میں لندن سے واپسی پر قاہرہ میں ٹھہرے۔ یہیں پر اخوان المسلمون کے عظیم رہنما امام حسن البنا شہید بھی آپ سے ملے اور آپ کو قرآن کریم کا ایک نسخہ بھی پیش کیا۔ یہ نسخہ اب بھی مقبرہ قائد کے ساتھ واقع میوزیم کی زینت ہے۔ انہی دنوں مفتی اعظم قاہرہ میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ ایک تقریب میں آپ نے قائد کو یوں خراجِ تحسین پیش کیا ”میں نے محمد علی جناح سے گفتگو کی ہے۔ مجھ سے زیادہ برطانوی ملوکیت کا دشمن شاید ہی کوئی ہو۔ میں نے محمد علی جناح کے خیالات کو انگریز دشمنی کی کسوٹی پر پرکھا ہے۔ وہ حقیقتاً آزادی چاہتے ہیں اور آزادی کے لیے انگریز سے مقابلے کا عزم رکھتے ہیں۔ میں ان سے گفتگو کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ جناح صاحب نہ صرف دستوری اور آئینی شخصیت کے حامل ہیں بلکہ انقلابی رہنما بھی ہیں۔ انقلابی افکار و خیالات ان کے دل و دماغ میں راسخ ہو چکے ہیں۔ مجھے اس امر کا یقین ہو گیا ہے کہ ہندوستان کے عوام اپنی آزادی کے لیے برطانوی شہنشاہیت اور ہندو سرمایہ دار دونوں کے خلاف لڑنے کا عزم کیے ہوئے ہیں۔“ پاکستان بننے کے بعد جناب مفتی اعظم نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ نے ہمیں فلسطین کے بدلے میں پاکستان کا خطہ عنایت فرمایا ہے۔“
مولانا ابوالکلام آزاد : ”قائداعظم محمد علی جناح ہر مسئلے کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لیتے تھے اور یہی ان کی کامیابی کا راز ہے۔
فخر الدین علی احمد سابق صدر بھارت : ”میں قائداعظم کو برطانوی حکومت کےخلاف لڑنے والی جنگ کا عظیم مجاہد سمجھتا ہوں۔“
کلیمنٹ اٹیلی وزیراعظم برطانیہ : ”نصب العین پا کستان پر ان کا عقیدہ کبھی غیر متزلزل نہیں ہوا اور اس مقصد کے لیے انہوں نے جو انتھک جدوجہد کی وہ ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔“
مسولینی وزیراعظم اٹلی : ”قائداعظم کے لیے یہ بات کہنا غلط نہ ہو گی کہ وہ ایک ایسی تاریخ ساز شخصیت تھے جو کہیں صدیوں میں جا کر پیدا ہوتی ہے۔“
برٹرینڈ رسل برطانوی مفکر ”ہندوستان کی پوری تاریخ میں کوئی بڑے سے بڑا شخص ایسا نہیں گزرا جسے مسلمانوں میں ایسی محبوبیت نصیب ہوئی ہو۔“
مہاتما گاندھی :”جناح کا خلوص مسلم ہے۔ وہ ایک اچھے آدمی ہیں۔ وہ میرے پرانے ساتھی ہیں۔ میں انہیں زندہ باد کہتا ہوں۔“
مسز وجے لکشمی پنڈت : ”اگر مسلم لیگ کے پاس سو گاندھی اور دو سو ابوالکلام آزاد ہوتے اور کانگریس کے پاس صرف ایک لیڈر محمد علی جناح ہوتا تو ہندوستان کبھی تقسیم نہ ہوتا۔“
ماسٹر تارا سنگھ سکھ رہنما : ”قائداعظم نے مسلمانوں کو ہندووں کی غلامی سے نجات دلائی۔ اگر یہ شخص سکھوں میں پیدا ہوتا تو اس کی پوجا کی جاتی۔“
پروفیسر اسٹینلے ”جناح آف پا کستان“ کے مصنف پروفیسر اسٹینلے یونیورسٹی آف کیلیفورنیا امریکہ اپنے کتاب کے دیباچے میں لکھتے ہیں ”بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو تاریخ کا دھارا بدل دیتے ہیں اور ایسے لوگ تو اور بھی کم ہوتے ہیں جو دنیا کا نقشہ بدل کر دیتے ہیں اور ایسا تو کوئی کوئی ہوتا ہے جو ایک نئی مملکت قائم کر دے۔ محمد علی جناح ایک ایسی شخصیت ہیں جنہوں نے بیک وقت تینوں کارنامے کر دکھائے۔“
یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ قائداعظم قیام پاکستان کے بعد جلد وصال کر گئے اور وہ چند سال مزید زندہ رہ جاتے تو آج ہمارے چٹیل پہاڑ سرسبز ، بے آباد زمینیں زرخیز اور صحرا گلشن میں بدل چکے ہوتے۔ بھارت کی طرف سے پاکستان کا پانی روک کر پاکستان میں خشک سالی برپا کر سکتا نہ اپنے ڈیموں کے دروازے کھول کر پاکستان کو سیلاب میں ڈبونے پر قادر ہوتا۔ قائداعظم کشمیر آزاد کرا چکے ہوتے اور کالا باغ ڈیم جیسے منصوبے کو سیاست کی بھینٹ نہ چڑھنے دیتے۔ پاکستان میں جگہ جگہ ڈیم بن چکے ہوتے۔ آج عدلیہ کو بے توقیری کا سامنا نہ ہوتا۔ آزادی و خود مختاری امریکہ کے آگے گروی نہ رکھی جا چکی ہوتی ۔ کراچی میں فسادات ہوتے نہ بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ ہوتی۔ پاکستان دو لخت ہوتا نہ آج کوئی لسانیت کی بنیاد پر صوبوں کے قیام کی بات کرتا۔ ملک میں خوشحالی کا دور دورہ ہوتا۔جہلا دولت کے بل بوتے پر ڈگریاں خرید کر پارلیمنٹ میں نہ بیٹھے ہوتے۔ ہمارا سفر اب بھی راست سمت میں شروع ہو سکتا ہے اگر قوم کو قائد اعظم جیسا لیڈر مل جائے۔
مزیدخبریں