قائداعظم کے پائے کا لیڈر ان کے ہم عصروں میں نہیں ملتا۔ بعد میں ہمارے یہاں ایسی ویرانی پیدا ہوئی اور اس قحط الرجال نے جنم لیا کہ ان کا ہم پلہ ہونا تو دور کی بات ہے ایسا رہنما بھی نہ پیدا کر سکے جو کسی بھی معنی میں ان کے مماثل ہوتا.... قائد کے عہد نے بلاشبہ بڑے بڑے لیڈر پیدا کئے۔ گاندھی اتاترک اور ان جیسے اپنی اپنی قوم کوآزادی کی نعمت سے ہمکنار کرنے والے معمولی لوگ نہ تھے۔ لیکن محمد علی جناح نے تو ایک قوم بنائی۔ ملک قائم کیا۔ مسلمانان برصغیر کو واضح نصب العین دیا آزادی دلائی۔ نقشہ عالم کو تبدیل کرکے رکھ دیا.... ان تمام کمالات پر دنیا خراج تحسین پیش کرتی ہے۔ لیکن ہم جو ان کے وارث ہیں۔ ان کے بنائے ہوئے ملک کے اندر آزادی نعمت قدرت کی دی ہوئی بہت سی نعمتوں سے تمتع ہو رہے ہیں۔ اپنے آپ کو ایک آزاد ملک کا مالک سمجھتے ہیں آخر صحیح معنوں میں ان کے چھوڑے ہوئے نقوش کی پیروی کیوں نہ کر سکے۔ جو اصول انہوں نے اپنی کامیاب اور تاریخی جدوجہد کے دوران قائم کئے تھے انہیں کیوں نہ اپنا سکے۔ جو ملک انہوں نے لیکر دیا تھا اسے اپنے لئے جنت ارضی میں تبدیل کیوں نہ کر سکے.... اس سوال کا جواب تلاش کرنے سے پہلے آئیے قائداعظم کی شخصیت کے نمایاں اور قابل تقلید پہلووں پر ایک نظر ڈال لیں۔
محمد علی جناح کسی بڑے کیا چھوٹے جاگیردار کے بھی بیٹے نہیں تھے.... نہ ان کا باپ بہت بڑا سرمایہ دار تھا۔ عام درجے کی تجارت کرتا تھا.... سیاست قائد کے گھر کی لونڈی نہ تھی۔ نہ انہیں خاندانی وراثت کے طور پر ملی تھی۔ انہوں نے اس میدان کارزار میں جو شخصی مقام حاصل کیا اور بلاشبہ بڑے بڑوں کے چھکے چھڑا دئیے.... سب کچھ ذاتی محنت‘ اعلیٰ درجے کی قابلیت اور شاندار کردار کا نتیجہ تھا.... ان کے عہد کے بڑے بڑے مسلمان لیڈر جاگیردار گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے جو سب کے سب انگریزوں کے حاشیہ بردار تھے۔ جو دوسرے تھے وہ کانگرس کا ساتھ دے رہے تھے۔ ان حالات میں قائد نے ایک ماہر آئین و قانون اور کھرے سیاستدان کے طور پر اپنی شناخت کرائی۔ انہیں بمبئی کی گورنری پیش کی گئی۔ ہائی کورٹ کا جج بننے کی دعوت دی گئی۔ معمولی عہدے نہ تھے۔ آج بھی ان پر بڑے بڑوں کی رال ٹپک جاتی ہے۔ محمد علی جناح نے آزادی حاصل کرنے کے نعروں کی فضا میں برصغیر کی مسلمان قوم کی قیادت کی ٹھان لی۔ اس کے آئینی حقوق کے حصول کو نصب العین ٹھہرایا۔ بیرسٹر جناح انگریزوں کے جاہ و جلال کو خاطر میں نہ لائے۔ وہ انگریز جس کی سلطنت میں سورج غروب نہ ہوتا تھا.... اس کی وجہ بطور لیڈر بے پناہ صلاحیتوں اور قابلیت کے ساتھ اپنے مقصد پر گہرا ایمان تھا۔ اس پر مستزاد نہایت درجہ دیانتدار اور شفاف و اجلے کردار کی مالک کی شخصیت تھی جس پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکتا تھا۔ ان کے بعد سامنے آنے والے ہمارے لیڈروں میں کون ہے جو ان صفات میں ان کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ آج ہماری حرماں نصیبی کا بنیادی سبب یہی ہے۔ ان کے بعد آنے والوں نے آئین و قانون کی پاسداری کی نہ دیانتداری کو شعار بنایا نہ کسی بڑے اصول کو حرز جاں بنایا۔
قائداعظم نے برصغیر کے مسلمانوں کو ایک علیحدہ قوم کے طور پر منوایا۔ اسی بنا پر انہیں آزاد ملک لیکر دیا یہ کام سیکولر ازم پر یقین رکھنے والا کوئی شخص ہرگز نہ کر سکتا تھا۔ سیکولر ازم کے نظریے کی پیروی کا لازمی مطلب کانگریس کا ساتھ دینا تھا۔ کیونکہ وہ اسی فلسفے کی علمبردار تھی۔ قائد نہ صرف اس جماعت سے علیحدہ ہوئے۔ مسلم لیگ کو اپنا پلیٹ فارم بنایا اور ان کی زبان پر سیکولرازم کا لفظ کبھی بھولے سے بھی نہیں آیا.... الطاف حسین نے یہ غلط کہا ہے کہ پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ کا نعرہ نہیں لگایا گیا۔ 1940ءسے لیکر 1947ءتک آل انڈیا مسلم لیگ کا کوئی جلسہ یا جلوس ایسا نہ تھا جس میں یہ نعرہ نہ لگایا گیا ہو قائد نے ہمیشہ بطور علیحدہ قوم مسلمانوں کے اسلامی تشخص کو اجاگر کیا۔ گیا رہ اگست والی تو ایک تقریر ہے جسے غلط معنی پہنائے جاتے ہیں۔ بانی پاکستان کی درجنوں سے زیادہ بیانات اور تقاریر موجود ہیں۔ گورنر جنرل کا حلف دلوانے کےلئے جب ماونٹ بیٹن کراچی میں آئے تو انہوں نے ”نصیحت“ کی کہ اہل پاکستان کو اکبر جیسے سیکولر بادشاہ کی مثال کو اپنانا چاہئے۔ قائد کے اندر صاحب ایمان جاگ اٹھا۔ انہوں نے فوراً وائسرائے کو ٹوکا.... اور کہا ہمارے لئے محمد الرسول اللہ منارہ نور کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے علاوہ کسی کی پیروی نہیں کی جا سکتی.... البتہ قائد تنگ نظری پر ہرگز یقین نہیں رکھتے تھے.... اسلام بھی اس کا سخت مخالف ہے۔ روشن خیالی حقیقی اسلامی تعلیمات میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ یہ دین فطرت ہے البتہ الطاف حسین کے جس سیکولر ازم نے کراچی کی سیاست میں رنگ جمایا ہے۔ وہ بے گناہ انسانوں کے خون سے لٹا پٹا ہے۔ لسانی و نسلی بنیادوں پر دکان سیاست کو چمکانا قائد کے نظریات کی تنسیخ ہے۔ جو لوگ بھی اس کے مرتکب ہیں انہیں قائد اسلام اور قرآن کا نام لینے کا کوئی حق حاصل نہیں۔